دنیا و آخرت کا مقابلہ
تشریح : عام طور پر یہی دکھائی دیتا ہے کہ ہر کوئی مال و دولت کے حصول میں پریشان اور مصروف ہے۔ کیونکہ اولاد کی محبت سب کو پاگل کئے ہوئے ہے۔ جب کہ دونوں چیزیں ہی انسان سے جدا ہوجانے والی ہیں۔ ساتھ اگر کچھ دے گا تو صرف وہ جو ہم نے علم الیقین کو سامنے رکھ کر کمایا اور جو اس علم پر یقین نہ رکھ کر حد اعتدال سے گزر جاتے ہیں تو وہ سخت دکھ اٹھائیں گے کیونکہ اس کے بعد پھر جو زندگی شروع ہوگی تو پھر علم العین یعنی مشاہدہ کی زندگی ہوگی۔ تو وہاں وہ پچھتائیں گے جس کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ تو ضروری ہے کہ ہم اس پر یقین کریں عمل کریں جو ہمیں علم القرآن و الحدیث سے مل رہا ہے۔ قرآن میں ہر قسم کا علم موجود ہے۔ ہماری تمام دوسری نعمتوں کے ساتھ پیغمبر اور قرآن کا نزول بھی بہت بڑی نعمت ہے۔ ان سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیے تاکہ آخرت میں جو دیکھنے کو ملے وہ ہماری نجات باغات اور پر آسائش زندگی کی صورت میں ملے نہ کہ بھڑکتی ہوئی آگ بد ترین زندگی مصیبتوں اور دکھوں سے بھرے ہوئے ٹھکانے ملیں۔
ہمارے سامنے قرآن کا پیغام ہے رسول ﷺ کی ہدایات ہیں۔ اولیاء کرام کے مشاہدات فرمودات اور پھر سائنس کے تجربات ' سب کچھ تو بتا رہا ہے کہ مرنے کے بعد زندہ ہو کر حساب کتاب دینا ہے اس کے مطابق جنت یا دوزخ ملنی ہے۔ کیونکہ ہمیں اللہ نے علم و یقین اور ارادہ کی آزادی دے رکھی ہے تو یہ آزادی یوں ہی تو نہیں ملی ہوئی۔ اس کا باقاعدہ حساب دینا ہوگا۔ تو پھر کیا یہ اچھا نہیں کہ نفس مطمنہ کے ساتھ اللہ کے سامنے حاضر ہوں اور خود الہ العٰلمین ہمارا یوں استقبال کریں۔
'' اے نفس مطمنئہ واپس آجا اپنے رب کے پاس کہ تو راضی ہے اس سے اور وہ راضی ہے تجھ سے میرے۔ (خاص) بندوں میں شامل ہوجا اور میری خاص جنت میں داخل ہوجا ''۔ (سورۃ الفجر آیات 26 تا 30)
اللہ ہمیں سب کو اپنی خاص رحمت کے سائے میں بہترین ' پاکیزہ اور صالح زندگیاں گزار کر جنت الفردوس میں جانے کی توفیق دے آمین ثم آمین۔
میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مجاہد ' میں اسی لیے نمازی