Mafhoom-ul-Quran - Al-Israa : 2
وَ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَكِیْلًاؕ
وَ : اور اٰتَيْنَا : ہم نے دی مُوْسَي : موسیٰ الْكِتٰبَ : کتاب وَجَعَلْنٰهُ : اور ہم نے بنایا اسے هُدًى : ہدایت لِّبَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل اَلَّا تَتَّخِذُوْا : کہ نہ ٹھہراؤ تم مِنْ دُوْنِيْ : میرے سوا ‎وَكِيْلًا : کارساز
اور ہم نے موسیٰ کو کتاب عنایت کی تھی اور اس کو بنی اسرائیل کے لیے رہنما مقرر کیا تھا کہ میرے سوا کسی کو کارساز نہ ٹھہرانا۔
عبرت کے لیے بنی اسرائیل کا ذکر تشریح : یہاں معراج کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اچانک بنی اسرائیل کا ذکر یوں آگیا کہ اہل مکہ کو خبردار کردیا جائے کہ یہ پیغمبر جو تم سے مخاطب ہے کوئی معمولی انسان نہیں بلکہ انسانیت کی بلندیوں سے ہو کر آرہا ہے یہ عظیم الشان اور بہترین انسان حقیقت میں ایک سچا اور مقبول الٰہی نبی ہے اگر اس پر یقین نہ کرو گے ایمان نہ لائو گے تو پھر بنی اسرائیل کا حال تمہارے سامنے ہے کہ جو قومیں کتاب الٰہی پانے کے بعد اس پر عمل نہیں کرتیں، نبیوں کو قتل کرتی ہیں، نافرمان اور سرکش ہوتی ہیں، تو ان کو ضرور دردناک سزا دی جاتی ہے۔ بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے یاد دلایا جا رہا ہے کہ تم نوح (علیہ السلام) کی نسل میں سے وہ بچے ہوئے لوگ ہو جو طوفان نوح میں نوح کی کشتی میں سوار ہونے کی وجہ سے بچ گئے تھے۔ تمہیں چاہیے کہ شکر گزاری کا راستہ اختیار کرو۔ اور نبی اکرم ﷺ کی فرمانبرداری کا راستہ اختیار کرو۔ کیونکہ نوح (علیہ السلام) بڑے شکر گزار، نیک اور اللہ کے فرمانبردار بندے تھے۔ کفار مکہ اور یہود و نصاریٰ کو عبرت دلانے کے لیے اللہ رب العزت بنی اسرائیل کے کچھ حالات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ بنی اسرائیل اتنی نافرمان قوم تھی اور ہمیں معلوم تھا وہ کیا کرے گی اسی لیے ہم نے ان کی کتاب میں ان کو پہلے سے آگاہ کردیا تھا کہ ” تم زمین میں دو دفعہ فساد برپا کرو گے۔ “ اور پھر انجام بھی برا ہی ہوا۔ پہلی تباہی تو ان کی بابل کے فرمانروا بخت نصر کے ہاتھوں ہوئی اور یہ واقعہ حضرت مسیح (علیہ السلام) سے تقریباً چھ سو سال قبل ہوا، اس نے یروشلم میں یہودیوں کو بےدریغ قتل کیا اور بہت ساروں کو غلام بنا لیا۔ یہ عذاب اس لیے آیا کہ جب انہوں نے اللہ کے نبیوں کو قتل کیا۔ تورات کے احکامات کی بری طرح نافرمانی کی، زمین میں فساد پھیلایا اور ہر قسم کی برائی کی، تو پھر ان پر عذاب آیا۔ بڑا عرصہ تم لوگ اس کے ظلم و ستم کے شکار رہے، پھر جب تمہیں دوبارہ اقتدار ملا، جب بخت نصر قتل ہوگیا تو تمہیں اللہ تعالیٰ نے مال و دولت، آل اولاد اور ہر طرح کی عزت واحتشام عطا کیا اور دوبارہ تمہیں طاقتور اور مضبوط بنا دیا۔ تو کچھ عرصہ بعد تم نے پھر ناشکری نافرمانی اور بداعمالی شروع کردی اور پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے لگے مگر اللہ نے ان کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا تو اس انتہائی بےراہروی کے بدلہ میں دوبارہ ان پر اس صورت سے عذاب نازل ہوا کہ رومی بادشاہ ٹیٹس نے یروشلم پر حملہ کر کے ان کو تہس نہس کردیا مال و متاع لوٹ لیا آسمانی صحیفوں کو روند ڈالا بیت المقدس اور ہیکل سلیمانی کو خوب نقصان پہنچایا اور ان لوگوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بیت المقدس سے نکال باہر کیا یہ تباہی و بربادی اور ذلت و خواری 70 ء میں ہوئی۔ رب العٰلمین مکہ کے کفار کو خبردار کر رہے ہیں کو جو اس زمانے میں تھے اور یہودیوں کو تنبیہہ کی جا رہی ہے کہ اب اگر تم نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ دشمنی کی نافرمانی کی یا بداعمالی کی تو یاد رکھو پھر تیسری دفعہ تمہیں ذلیل و خوار ضرور کیا جائے گا۔ اور اگر نیکی اختیار کی، ایمان لے آئے اور بداعمالیوں سے دور رہے تو رب العلمین ضرور اس کے بدلے میں دنیا و آخرت میں ہر طرح کی بھلائیاں، خوشیاں اور کامیابیاں عطا کرے گا۔ مگر ان عقل کے اندھوں نے پھر وہی طریقہ اختیار کیا اور نبی آخر الزمان حضرت محمد ﷺ کے نافرمان اور دشمن بنے رہے اور خوب ہی بداعمالیاں کیں اور وہی رویہ آپ کے ساتھ اختیار کیے رکھا جو ان سے پہلے رسالت موسوی و عیسوی کے ساتھ روا رکھا ہوا تھا تو پھر اس نااہل کے بدلے تیسری دفعہ ان پر عذاب الٰہی نازل ہوا اور مسلمانوں کے ہاتھوں خوب ہی ذلیل و خوار ہوئے اور آخر کار ان کو مدینے اور خیبر سے نکلنا پڑا۔ پھر ایک اور خبر ان لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ یہ دیتے ہیں کہ ابھی آخرت کا عذاب ان کے لیے باقی ہے۔ اور وہ بڑا ہی دردناک جہنم کا عذاب ہے جو پورے انصاف کے ساتھ ان کو ضرور دیا جائے گا۔
Top