Mafhoom-ul-Quran - Al-Baqara : 106
مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْهَاۤ اَوْ مِثْلِهَا١ؕ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
مَا نَنْسَخْ : جو ہم منسوخ کرتے ہیں مِنْ آيَةٍ : کوئی آیت اَوْ نُنْسِهَا : یا اسے بھلا دیتے ہیں نَأْتِ : لے آتے ہیں بِخَيْرٍ : بہتر مِنْهَا : اس سے اَوْ مِثْلِهَا : یا اس جیسا اَلَمْ : کیا نہیں تَعْلَمْ : جانتے تم اَنَّ اللہ : کہ اللہ عَلٰى : پر كُلِّ شَیْءٍ : ہر شے قَدِیْرٌ : قادر
ہم اپنی جس آیت کو منسوخ کردیتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں اس کی جگہ اس سے بہتر لاتے ہیں۔ یا کم از کم ویسی ہی، کیا تم جانتے نہیں ہو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
آیات کی تنسیخ تشریح : یہ ایک خاص شبہہ کا جواب ہے جو یہودی مسلمانوں کے دلوں میں ڈالنے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اگر پچھلی کتابیں اور قرآن پاک ایک ہی اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں تو پھر ان کے احکامات کیوں مختلف ہیں۔ یہ باتیں وہ تحقیق کی خاطر نہیں، بلکہ محض اس لئے کرتے تھے کہ مسلمان قرآن کو منجانب اللہ ماننے کے لئے شک و شبہہ میں پڑجائیں۔ اللہ تعالیٰ نے تنسیخ آیات کا جو ذکر کیا ہے، تو تمام بڑے بڑے مفسرین نے اس کے بارے میں مختلف تفاسیر بیان کی ہیں۔ ” درس قرآن “ کی تفسیر کے مطابق یہی قول صحیح معلوم ہوتا ہے کہ ” آیات کے منسوخ ہونے سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے پہلے احکام اور قدیم کتب کی جگہ قرآن مجید کے جدید احکام آگئے ہیں اور یہ احکام پہلے حکموں کو منسوخ کرتے ہیں واقعات اور تاریخ کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ جب بھی کوئی کتاب انسانوں کے ذہن سے فراموش ہوئی یا منسوخ قرار پائی تو دوسری کتاب اس جیسی یا اس سے بہتر نازل ہوگئی اور اللہ کے بندے اللہ کی ہدایت سے محروم نہ رکھے گئے اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں مالک ہوں، میرے اختیارات غیر محدود ہیں، اپنے جس حکم کو چاہوں منسوخ کر دوں اور جس چیز کو چاہوں حافظوں سے محو کر دوں یعنی بھلا دوں، مگر جس چیز کو منسوخ کرتا ہوں یا بھلا دیتا ہوں۔ اس سے بہتر چیز اس کی جگہ پر لاتا ہوں “۔ اگلی آیت میں یہودیوں کی ایک اور سازش بیان کی گئی ہے جو آنحضرت ﷺ سے سوالات کرنے کے بارے میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
Top