Mafhoom-ul-Quran - Al-Baqara : 17
مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا١ۚ فَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَ تَرَكَهُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبْصِرُوْنَ
مَثَلُهُمْ : ان کی مثال کَمَثَلِ : جیسے مثال الَّذِي : اس شخص اسْتَوْقَدَ : جس نے بھڑکائی نَارًا : آگ فَلَمَّا : پھر جب أَضَاءَتْ : روشن کردیا مَا حَوْلَهُ : اس کا اردگرد ذَهَبَ : چھین لی اللَّهُ : اللہ بِنُورِهِمْ : ان کی روشنی وَتَرَکَهُمْ : اور انہیں چھوڑدیا فِي ظُلُمَاتٍ : اندھیروں میں لَا يُبْصِرُونَ : وہ نہیں دیکھتے
ان کی مثال تو ایسی ہے کسی نے آگ جلائی پس جب آگ نے ان کے اردگرد کو روشن کردیا تو اللہ نے ان کا نور بصارت سلب کرلیا اور انہیں اس حال میں چھوڑ دیا کہ تاریکیوں میں انہیں کچھ نظر نہیں آتا
منافقوں کی مثال اور ان کا انجام تشریح : اس میں بھی منافقین کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں منافق دو قسم کے تھے ایک وہ جو دل سے اسلام کے پکے دشمن تھے مگر زبانی مسلمان تھے دوسرے وہ جو ارادہ کے کمزور تھے اور مکمل طور پر ایک راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ نہ کرسکتے تھے جس طرف ذاتی مفاد دیکھتے ادھر ہی جھک جاتے ان لوگوں کی مثال اللہ تعالیٰ نے یوں دی ہے کہ گویا ایک شخص آگ روشن کرتا ہے جب چاروں طرف روشنی پھیل جاتی ہے تو اچانک ان کی بصارت سلب کرلی جاتی ہے اور انہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ منافق لوگوں کو چاروں طرف ایمان، اسلام اور سلامتی کی راہیں نظر آرہی ہیں وہ دیکھتے ہیں مگر کفر کا پردہ اچانک آنکھوں کی بینائی ختم کردیتا ہے اور وہ اپنی اغراض کی وجہ سے اسلام کی روشنی سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے اللہ نے فرمایا ہے۔ ” یہ لوگ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں یہ نہیں لوٹیں گے “ وہ لوگ یعنی منافق دنیاوی فائدوں، ذاتی غرضوں اور نفسانی خواہشات کی پیروی میں اس قدرگم ہوگئے ہیں کہ ان کو حق کی سچائی، اسلام کی برکت اور محمد ﷺ کی نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوتا ان کے چاروں طرف اسلام کا نور پھیلا ہوا ہے مگر نہ ان کے پاس وہ آنکھیں ہیں کہ اس سچائی کو دیکھ سکیں نہ کان ہیں کہ حق کی بات کو سن سکیں اور نہ ہی ایسی زبان ہے کہ حق کی تصدیق کرسکیں یا حق کو پھیلا سکیں۔ علم حاصل کرنے کے تین ہی ذریعے ہیں۔ کان، زبان اور آنکھ، ان کی یہ تینوں قوتیں کفر کے اندھیروں نے سلب کردی ہیں۔ آیت میں آتا ہے کہ اللہ نے ان سے نور بصیرت چھین لی اور فرمایا کہ یہ لوگ کبھی ایمان کی طرف نہیں لوٹیں گے تو یہاں مسئلہ کھڑا ہوتا ہے کہ اس کا ذمہ اللہ پر ہے نہ کہ ان لوگوں پر ہے اس میں یہ مسئلہ تقدیر کا نہیں کہ اللہ نے ان کی تقدیر میں کفر و منافقت لکھ دی ہے۔ مسئلہ علم کا ہے اللہ کو معلوم ہے کہ یہ لوگ اس قدر ہٹ دھرم اور بیوقوف دنیا پرست انسان ہیں کہ یہ کبھی بھی ایمان کی طرف پلٹ نہیں سکتے۔
Top