Mafhoom-ul-Quran - Al-Baqara : 45
وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ وَ اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِیْنَۙ
وَاسْتَعِیْنُوْا : اور تم مدد حاصل کرو بِالصَّبْرِ : صبر سے وَالصَّلَاةِ : اور نماز وَاِنَّهَا : اور وہ لَکَبِیْرَةٌ : بڑی (دشوار) اِلَّا : مگر عَلَى : پر الْخَاشِعِیْنَ : عاجزی کرنے والے
صبر اور نماز سے مدد لو، بیشک نماز ایک مشکل کام ہے لیکن ان فرمانبردار بندوں کے لئے مشکل نہیں ہے
صبر اور نماز سے مدد تشریح : اس آیت مبارکہ میں اگرچہ یہود کو ہی مخاطب کیا گیا ہے، لیکن دراصل یہ پوری نوع انسانی کو بتایا گیا ہے کہ نیکی اختیار کرنے، نیکی کی راہ دکھانے اور دنیا و آخرت میں کامیابیاں حاصل کرنے کے لئے بہترین طریقہ یہ ہے کہ صبر اور نماز سے اللہ کی مدد طلب کرو، کیونکہ صبر کی برکات بیشمار ہیں۔ تفہیم القرآن میں کیا خوب تعریف کی گئی ہے صبر کی ملاحظہ ہو۔ ” صبر کے لغوی معنی ہیں روکنا اور باندھنا اور اس سے مراد ارادہ کی وہ مضبوطی، عزم کی وہ پختگی اور خواہشات نفس کا وہ انضباط ہے جس سے ایک شخص نفسانی ترغیبات اور بیرونی مشکلات کے مقابلہ میں اپنے قلب و ضمیر کے پسند کئے ہوئے راستہ پر لگا تار بڑھتا چلا جائے ارشاد الٰہی کا مدعا یہ ہے کہ اس اخلاقی صفت کو اپنے اندر پرورش کرو اور اس کو باہر سے طاقت پہنچانے کے لئے نماز کی پابندی کرو۔ نماز کی فضیلت اور قواعد کئی مرتبہ بتائے جا چکے ہیں۔ بہرحال مختصراً عرض ہے کہ نماز جسمانی اور روحانی طہارت کا اللہ سے ملاقات کا اس کے شکر ادا کرنے کا اور اس سے مدد مانگنے کا ایک بڑا ہی مستحکم ذریعہ ہے۔ مگر نماز کا ادا کرنا نافرمان لوگوں کے لئے بےحد مشکل اور تھکا دینے والا کام ہے اس کے برعکس نماز ان لوگوں کے لئے انتہائی پسندیدہ ہے اور سکون دینے والا فعل ہے جو اللہ پر مکمل ایمان رکھتے ہیں اور جو اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ ضرور اس زندگی کے بعد اپنے رب سے ملاقات کریں گے تو ایسے لوگ جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں ان کے لئے نماز چھوڑنا انتہائی بےسکونی اور بےچینی کا سبب بنتا ہے دراصل اس آیت میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اسلام دین کی اس قدیم شکل کو پاک صاف اور واضح کرنے کے لئے آیا ہے جو کہ گزشتہ تمام مذاہب مثلاً عیسائیت، یہودیت اور دوسرے مذاہب میں بھی موجود تھی اس لئے بنی اسرائیل کے علماء کو مخاطب کرکے زور دیا گیا ہے کہ اپنی کتابوں کی روشنی میں دین اسلام کو پہچانیں اور لوگوں کو نیکی کی ہدایت کریں اور مذہب اسلام کی پوری پوری حمایت کریں۔ اپنی تمام کوتاہیوں، نافرمانیوں اور لاپرواہیوں کو بھول کر صبر و صلوٰۃ سے کام لیں اور بھرپور طریقہ سے اسلام کا ساتھ دیں یہ سب کچھ ہمارے موجودہ علماء کے لئے بھی فرمایا گیا ہے۔ لہٰذا سب کو چاہیے اس فرمان باری تعالیٰ پر عمل کریں اور نجات دارین حاصل کریں۔ محمد موسیٰ اپنی کتاب ” جنت القناعتہ “ میں لکھتے ہیں : ” انسان کے ذمہ عبادت ہے، فکر آخرت ہے، ذکر اللہ ہے اور احکام شریعت کی پابندی ہے لہٰذا ہر انسان اپنی ذمہ داری اور اپنے فرائض کی بجا آوری کا خیال رکھے۔ ازل میں جو رزق اللہ تعالیٰ نے کسی آدمی کے لئے متعین کیا ہے وہ اسے ضرور پہنچ کر رہے گا۔ رزق حلال کے لئے جدوجہد کرنا شرعاً جائز ہے مگر رزق کے لئے اتنا فکر مند ہونا کہ عبادت میں نقصان ہوجائے سنگین غلطی ہے “۔
Top