Mafhoom-ul-Quran - Al-Baqara : 44
اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
اَتَأْمُرُوْنَ : کیا تم حکم دیتے ہو النَّاسَ : لوگ بِاالْبِرِّ : نیکی کا وَتَنْسَوْنَ : اور بھول جاتے ہو اَنْفُسَكُمْ : اپنے آپ کو وَاَنْتُمْ : حالانکہ تم تَتْلُوْنَ الْكِتَابَ : پڑھتے ہو کتاب اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : کیا پھر تم نہیں سمجھتے
تم دوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لئے کہتے ہو، مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو۔ حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو کیا تم عقل سے بالکل ہی کام نہیں لیتے
دوسروں کو نصیحت، خود میاں فضیحت تشریح : اس آیت میں یہودی علماء کو فضیحت کے انداز میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں کتاب دی جا چکی ہے جس میں تمام احکامات تفصیل سے بیان کئے جا چکے ہیں مگر تم نے دل سے ان کو نہ تو قبول کیا ہے اور نہ ہی خلوص سے ان پر عمل پیرا ہوئے ہو۔ ایسی حالت میں جب تم زبانی کلامی لوگوں کو نیکی کی ہدایت کرتے ہو تو بتاؤ تمہاری زبانی ہدایات کا دوسروں پر کیا اثر ہوسکتا ہے۔ صرف اپنی نیک نامی کے لئے تم لوگوں کو راہ دکھانے کا کام کرتے ہو۔ دراصل تم خود راست بازی اور نیکی سے مکمل غافل ہوچکے ہو۔ حالانکہ عقل کا تقاضہ یہ ہے کہ پہلے خود انسان اپنی اصلاح کرے خلوص نیت سے پاکی اور راست بازی کی راہ اپنائے اور عملی طور پر نمونہ بنے کہ اللہ کا مقبول اور مخلص متقی انسان کیا ہوتا ہے تو پھر وہ دوسروں پر ضرور اثر انداز ہوسکتا ہے اور بہترین نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔ یہ آیت مسلمانوں کے لئے بھی رشد و ہدایت پیش کرتی ہے اور اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ دوسروں کو نصیحت کرنے سے پہلے اپنی اصلاح بہت ضروری ہے، کیونکہ قوموں کی تباہی کا ایک بہت بڑا ذریعہ یہ ہے کہ علماء و فقہاء منافق، لاپرواہ، عیش پرست اور ریاء کار ہوجائیں تو ایسی صورت میں قوموں کی تباہی و بربادی لازمی ہوجاتی ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کے ہر طبقہ فکر کے ہر انسان کو پاکی، تقویٰ اصلاح اخلاق اور دینی احکامات پر سختی سے عمل پیرا ہونا چاہئے۔ اور دوسروں کو بھی نیکی کی ہدایت کرنی چاہیے خاص طور سے علماء دین کو تو اس بات کا بےحد خیال رکھنا چاہیے ان تمام باتوں پر عمل کرنے کے لئے اللہ نے اگلی آیت میں مزید راہنمائی کی ہے۔
Top