Mafhoom-ul-Quran - Al-Ahzaab : 9
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَآءَتْكُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًاۚ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ایمان والو اذْكُرُوْا : یاد کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْ جَآءَتْكُمْ : جب تم پر (چڑھ) آئے جُنُوْدٌ : لشکر (جمع) فَاَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجی عَلَيْهِمْ : ان پر رِيْحًا : آندھی وَّجُنُوْدًا : اور لشکر لَّمْ تَرَوْهَا ۭ : تم نے انہیں نہ دیکھا وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرًا : دیکھنے والا
مومنو ! اللہ کی اس مہربانی کو یاد کرو جو اس نے تم پر اس وقت کی جب فوجیں تم پر حملہ کرنے کو آئیں تو ہم نے ان پر ہوا بھیجی اور ایسے لشکر نازل کیے جن کو تم دیکھ نہیں سکتے تھے اور جو کام تم کرتے ہو اللہ ان کو دیکھ رہا ہے۔
واقعہ غزوہ احزاب تشریح : جیسا کہ پچھلی آیات میں مسلمانوں کو اللہ کے رسول کی فرمانبرداری کا حکم دیا گیا تھا تو یہاں سے رکوع 3 کے آخرتک کی آیات اس وقت نازل ہوئی تھیں جب نبی اکرم ﷺ بنی قریظہ سے فارغ ہوچکے تھے۔ یہ پورے دو رکوع غزوہ احزاب کے واقعہ سے متعلق ہیں اور ساتھ ہی ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں کے متعلق ہدایات اور احکامات ہیں۔ ہجرت کے دوسرے سال غزوہ بدر کا واقعہ پیش آیا۔ تیسرے سال غزوہ احد ہوا۔ چوتھے سال غزوہ احزاب پیش آیا۔ غزوہ احزاب کفار و مشرکین اور یہود کی مشترکہ طاقت کے نتیجہ میں ہوا۔ یہ فوج اتحادیوں کی فوج تھی جس کی تعداد 10 سے 15 ہزار تک بتائیـ گئی ہے جب کہ مسلمان تین ہزار تھے۔ جن میں منافقین بھی شامل تھے۔ اور سخت سردی کا موسم تھا۔ یہ جنگ مسلمانوں کے لیے بڑی ہی سخت آزمائش کی جنگ تھی۔ مگر ادھر مسلمانوں کی مدد میں اللہ عظیم کی مدد شامل تھی اسی لیے تو مسلمانوں کو ایسی بہترین فتح ملی کہ مخالف گروہوں، کفار و مشرکین، یہود اور منافقین کی کمریں اس طرح توڑ دیں کہ آئندہ وہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کا سوچ بھی نہ سکتے تھے۔ اس طرح یہ غزوہ مدینہ کی سرزمین پر کفر و اسلام کا آخری معرکہ تھا۔ اس غزوہ کی وجوہات کچھ یوں ہیں۔ بنی نصیر کے یہود جن کو شرارتوں کی وجہ سے مدینہ سے باہر نکال دیا گیا تھا انہوں نے عرب کے بڑے بڑے قبیلوں کو حملہ کے لیے جمع کرلیا۔ احد میں مسلمانوں کے نقصان کی وجہ سے کفار کو مدینہ پر حملہ کرنے کی جرأت ہوئی۔ حملہ اتنا بھر پور انداز میں کیا گیا کہ یکدم مسلمان گھبرا گئے۔ کیونکہ سیدناسلمان فارسی ؓ اور باقی تمام صحابہ کی مرضی سے مدینہ کے اندر محصور ہو کر یہ جنگ لڑی گئی۔ تین طرف سے شہر قدرتی طور پر محفوظ تھا چوتھی طرف خندق کھود لی گئی اس کی لمبائی 3½میل تھی چوڑائی اور گہرائی اتنی تھی کہ دشمن اس کو پار نہ کرسکے۔ یہ خندق شیخین سے شروع ہو کر جبل سلع کے مغربی گوشے تک تھی۔ دشمن کی فوج کا ساز و سامان اور تعداد دیکھ کر مسلمان مبہوت ہوگئے۔ جیسا کہ اللہ نے فرمایا ” تمہارے دل دھڑک کر گلوں تک پہنچ گئے تھے۔ محاصرہ کیونکہ 21 دن تک رہا اس لیے مسلمانوں کے کمزور ایمان والے لوگ گھبرا گئے اور کچھ اللہ کے وعدہ کے خلاف بولنے لگے۔ کچھ محاذ سے بھاگنے کی ترکیبیں کرنے لگے اور کچھ یہود نے جو مدینہ کے اندر تھے اندر سے حملے کا ارادہ کیا اور کچھ منافقین نے علیحدہ ہونے کا پروگرام بنایا۔ اور یوں پکے سچے اور مضبوط مسلمانوں کا پتہ چل گیا۔ کیونکہ ان کے حوصلے بلند تھے اور ان کو اللہ کے ” فتح “ کے وعدے پر پورا یقین تھا وہ اس یقین اور ایمان کی مضبوطی کے سہارے اپنے اپنے محاذ جنگ پر ڈٹے ہوئے تھے۔ کہ بیشمار مصیبتوں، پریشانیوں اور شدید آزمائشوں کے بعد بالاخر اللہ کی مدد آپہنچی رات کے وقت سخت قسم کا طوفان باد و باراں آیا کہ جس سے دشمن کی ہر چیز، کیا خیمے، کیا ہتھیار، کیا جانور اور کیا خوراک غرض ہر چیز تہس نہس ہوگئی اور لشکر تتر بتر ہوگیا۔ صبح مسلمانوں نے دیکھا کہ میدان خالی پڑا ہے تو اللہ کی مدد پر حیران ہوتے ہوئے سجدہ شکر بجا لائے۔ اسلامی طرز عمل کے چند نکات اس غزوہ میں ملتے ہیں۔ 1۔ موت کے ڈر سے میدان جنگ سے بھاگنا۔ کیونکہ موت نے تو ہر صورت آنا ہے۔ جہاں بھی بھاگ جاؤ۔ موت ضرور آپکڑے گی۔ 2۔ اللہ کا فیصلہ اٹل ہے۔ اگر اس نے بھلائی پہنچانے کا فیصلہ کیا ہے تو کوئی روک نہیں سکتا اور اگر نقصان کا فیصلہ ہوچکا ہے تو وہ بھی اٹل ہے کوئی اس کو روک نہیں سکتا۔ 3۔ منافقین کی پہچان۔ لڑائیـ میں کبھی کبھی آتے ہیں تاکہ فتح کی صورت میں مال غنیمت مل جائے اور ویسے ہر کام میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ خطرے کے وقت مرنے والے ہوجاتے ہیں۔ 4۔ منافقین اور کمزور ارادے والے لوگوں کا کوئی کام بھی اللہ کے حضور منظور نہیں ہوتا۔ کیونکہ ہر کام میں خلوص نیت، پاک نیت اور پکے ارادے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ورنہ بڑے سے بڑا کام بھی بےکار ہوتا ہے۔ اللہ کے پاس نہ تو وہ قبول ہوتا ہے اور نہ اس کا کوئی اجر ملتا ہے۔ 5۔ رسول ﷺ کی پیروی۔ جو لوگ اللہ و آخرت کو مان چکے ہیں اور ہر وقت دل میں اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں وہی دلیر، ثواب کے امیدوار اللہ کے پسندیدہ لوگ ہیں۔ ایسے ہی لوگ نبی ﷺ کی اطاعت کرنے کے لائق ہیں۔ 6۔ عہد کے پکے لوگ۔ جب انہوں نے کفار کی بیشمار فوج کو دیکھا تو بجائے پریشان ہونے کے اپنے عہد اور اللہ کے وعدے پر مضبوط اعتقاد رکھتے ہوئے میدان میں ڈٹ کر کھڑے ہوگئے۔ اور ان کا یقین و ایمان اور بھی مضبوط ہوگیا۔ منافقین ان کے برعکس پریشان ہو کر بھاگنے لگے۔ 7۔ اللہ کا وعدہ بخشش کا اور سزا کا ضرور پورا ہو کر رہے گا۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور جن کو اللہ توبہ کی توفیق دے گا تو ان کو بخش بھی دے گا۔ کیونکہ اللہ غفور الرحیم ہے۔ (بخشنے والا رحم کرنے والا) 8۔ اللہ کی تدبیر سب سے بڑی ہے۔ جیسے اس نے دشمن کی فوج کو بغیر لڑائی کے ہی بھگا دیا۔ 9۔ بنو قریظہ کی سزا۔ وہ بھی اپنے مضبوط قلعوں سے نکالے گئے اور سزا کے مستحق ہوئے۔ یہ مدینہ کے مشرق میں رہتے تھے۔ مسلمانوں سے صلح کا معاہدہ کئے ہوئے تھے۔ مگر غزوہ احزاب میں حملہ کے وقت دشمن سے مل گئے۔ کفار کی شکست پر یہ یہودی بھاگ کر اپنے قلعوں میں چلے گئے۔ آنحضرت ﷺ نے ان کا محاصرہ کرلیا۔ پچیس دن کے محاصرے کے بعد انہوں نے صلح کی گفتگو کی۔ اوس کے سردار سیدناسعد بن معاذ ؓ نے ان کی رضا مندی پر یہ فیصلہ دیا کہ کیونکہ یہود نے برے وقت پر وعدہ خلافی کی یعنی غداری کی اس لیے ان کے نوجوان قتل کردیے جائیں بچے اور عورتیں قیدی بنا لیے جائیں۔ ان کے مال و جائیداد کے مالک مہاجرین کو بنا دیا جائے۔ اس کے بعد ایک اور زمین پر تمہیں قبضہ دیا۔ اس سے مراد خیبر کی زمین قیصر و کسریٰ اور کئی اسلامی فتوحات کی نشاندہی کی گئی۔ جو کچھ بیان کیا جا چکا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ قادر مطلق ہے اور ہر چـیز پر قدرت رکھتا ہے جو چاہے کرسکتا ہے اور کوئی بھی اس کے کاموں میں کسی قسم کی دخل اندازی نہیں کرسکتا۔ جب ہم جنگ احزاب کا پوری طرح جائزہ لے لیتے ہیں تو اسلام کی برکتوں، رحمتوں اور فضیلتوں کا یقین پوری طرح ہوجاتا ہے۔ اسلام کا تو مطلب ہی امن اور سلامتی ہے یہ دین فطرت ہے۔ جب ہم اسلامی تاریخ کے واقعات دیکھتے ہیں تو ہمیں بیشمار واقعات ایسے ملتے ہیں جو اس بات کا عملی ثبوت ہیں کہ اسلام نے انسان کو رحمت کا سبق دیا ہے۔ مثلاً ہجرت مدینہ ہے۔ پھر فتح مکہ ہے۔ جنگ احزاب تو بہت بڑا واقعہ ہے جو اس حدیث پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ آپ نے فرمایا ” دشمن سے جنگی مڈ بھیڑ کی تمنا نہ کرو، تم اللہ سے عافیت مانگو “۔ اسی طرح مکہ کی مہم میں ایک مسلمان نے کہا ” آج گھمسان کا دن ہے۔ “ آپ نے فرمایا ” آج رحمت کا دن ہے “۔ مولانا وحید الدین خان صاحب نے اس موضع کو بڑے پیارے انداز میں بیان کیا ہے لکھتے ہیں۔ ” حقیقت یہ ہے کہ اسلامی کلچر رحمت کا کلچر ہے۔ وہ گن کلچر نہیں۔ اسلام انسانوں کے درمیان ہر حال میں معتدل اور پرامن تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے خواہ اس کے لیے فریق ثانی کی یک طرفہ شرطوں پر صلح کرلینا پڑے، جیسا کہ حدیبیہ کے موقع پر کیا گیا۔ اہل ایمان کا کام نہ سر کاٹنا ہے اور نہ سر کٹوانا اہل ایمان کا کام یہ ہے کہ وہ دنیا میں اللہ کے متواضع بندے بن کر رہیں۔ وہ برے سلوک کے جواب میں اچھا سلوک کریں۔ وہ اعلیٰ اخلاق کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں معرفتِ حق کے چشمے جاری کریں وہ خود بھی ربّانی انسان بنیں اور دوسروں کو بھی ربّانی انسان بنانے میں اپنی ساری طاقت لگا دیں۔ (از دین انسانیت صفحہ 106)
Top