Mafhoom-ul-Quran - Faatir : 15
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَى اللّٰهِ١ۚ وَ اللّٰهُ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اَنْتُمُ : تم الْفُقَرَآءُ : محتاج اِلَى اللّٰهِ ۚ : اللہ کے وَاللّٰهُ : اور اللہ هُوَ : وہ الْغَنِيُّ : بےنیاز الْحَمِيْدُ : سزاوار حمد
اے لوگو ! تم سب اللہ کے محتاج ہو اور اللہ بےپرواہ سب تعریفوں والا ہے
سچ تو یہ ہے جو اللہ نے اعلان کیا ہے تشریح : ان آیات کی وضاحت کیا کی جائے یہ تو بذات خود علم و عرفان اور کلام الٰہی کی انتہائی آسان اور عام فہم مضمون کا مجموعہ ہیں۔ اہل علم کو معلوم ہے کہ مومن کو آنکھوں والا، زندہ اور نور سے تشبیہ دی گئی ہے جبکہ کافر کو اندھا، تاریکی اور مردہ کہا گیا ہے۔ پھر کفار کی ایک خاص خصلت کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ اتنا ہٹ دھرم اور ضد کا پکا ہوتا ہے کہ ہمیشہ نبیوں کو جھٹلاتا رہتا ہے اس لیے سیدنامحمد ﷺ کو بار بار یہ تاکید کی گئی ہے کہ آپ ان کی ضد پر پریشان نہ ہوا کریں بس آپ ان کو سمجھاتے رہیں ان سے نمٹنا اللہ کا کام ہے۔ بار بار کفار کے لیے دوزخ اور مومن کے لیے جنت کا اعلان کیا گیا ہے۔ سزا اور جزا کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا گیا ہے۔ پھر دوزخ اور جنت کے بھی درجات ہوں گے جیسا کہ اہل ایمان کے بھی تین گروہ ہوں گے۔ یعنی علماء، صالحین اور ہلکے و زیادہ نیک بندے۔ بہر حال اللہ غفور رحیم، عزیز غفور، خبیر بصیر اور غفور شکور ہے۔ اسی لیے اس نے قرآن و رسول بھیجا اور بار بار اپنی تخلیقات اور رحم و کرم کا ذکر کیا کہ لوگ نیکی اختیار کر کے فلاح پائیں۔ ڈاکٹر دلدار احمد قادری صاحب اس کو بڑے اچھے انداز میں بیان کرتے ہیں ملاحظہ ہو۔ ” خالصتاً مذہبی پلیٹ فارم سے آزادانہ تحقیق و جستجو، غور و فکر اور تعقل و تدبیر کی دعوت تحریک دے کر قرآن نے تاریخ انسانی میں ایک نئے فکری دور کی بنیاد رکھی ہے۔ قرآنی تعلیمات نے علم و شعور کے فروغ کے لیے قوت محرکہ کا کام کیا۔ اور یہ قرآنی تعلیمات ہی کا نتیجہ تھا کہ کسی بھی قسم کے علم و فن سے عاری، تہذیب کے روایتی تاریخی مراکز سے دور شرک و بت پرستی اور توہمات کا شکار ایک جاہل قوم تاریخ انسانی کے ایک ڈیڑھ صدی کے حیرت انگیز طور پر مختصر ترین عرصہ میں علم و فن اور تہذیب و تمدن کا عالمی مرکز بن گئی۔ تاریخ انسانی کا غیر جانبدارانہ مطالعہ بتاتا ہے کہ دنیا کی تمام تر موجودہ علمی و تہذیبی ترقی اسی علمی و فکری تحریک کا تسلسل اور نتیجہ ہے جسے قرآن نے چودہ سو سال قبل برپا کیا تھا۔ یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر قرآن نازل نہ ہوتا تو انسانیت ہمیشہ کبھی نہ ختم ہونے والے تاریک دور میں مبتلاء رہتی۔ “ (از کائنات قرآن اور سائنس) ماہر تاریخ مائیکل ٹارٹ نے اپنی مشہور کتاب ” The 100“ میں اس حقیقت کا اقرار کیا ہے ” کہ نبی اکرم ﷺ نے انسانی تاریخ پر تمام بنی نوع انسان میں سب سے زیادہ اثر مرتب کیا ہے “۔ اور یہ احسان اصل میں اللہ رحیم و کریم خالق اعلیٰ نے اپنے بندوں پر کیا ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کی پہچان اس سے محبت اس پر ایمان اور بھروسہ آدمی کی ہر پریشانی، غم اور فکر کی دوا ہے کیونکہ یہ اندرونی طاقت روحانی روشنی، غم اور فکر کی دوا ہے کیونکہ یہ اندرونی طاقت روحانی روشنی، اللہ کی محبت انسان کو تمام فکروں سے نجات دلا کر بےحد سکون، فرحت اور مسرت عطاء کرتی ہے۔ جب کہ موجودہ سائنسی ایجادات نے انسان کو بلند وبالا عمارات، شاندار مشینیں بہترین سہولیات دی ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ ان سائنس اور ٹیکنالوجی کی چار سو سالہ ایجادات نے انسان کو ذہنی سکون اور قلبی خوشی سے کافی حد تک دور کر رکھا ہے۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ سائنس کا اگلا قدم مذہب کی طرف ہوگا۔ مثلاً زندگی کی بہترین تنظیم کے لیے آخرت کا تصور دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ مولانا وحیدالدین صاحب لکھتے ہیں کہ ” والٹیر کسی مابعد الطبیعی حقیقت کو نہیں مانتا مگر اس کے نزدیک ” اللہ اور دوسری زندگی کے تصور کی اہمیت اس لحاظ سے بہت زیادہ ہے کہ وہ اخلاقیات کے (Postulates of Moral feeling) کا کام دیتے ہیں۔ اس کے نزدیک صرف اسی کے ذریعہ سے بہتر اخلاق کی فضا پیدا کی جاسکتی ہے۔ ، اگر یہ عقیدہ ختم ہوجائے تو حسن عمل (نیک عمل) کے لیے کوئی محرک باقی نہیں رہتا، اور اس طرح سماجی نظام کا برقرار رہنا ناممکن ہوجاتا ہے “۔ (History of Philosophy by Windelband, P, 496 از مذہب اور جدید چیلنج ) سیدھی سی بات ہے کہ ہمیں اللہ نے پیدا کیا ہے وہ اکیلا ہے اس کو کسی بھی کام میں کسی قسم کے مددگار کی ضرورت نہیں۔ اس نے تمام مخلوقات سے بہترین مخلوق انسان کی صورت میں پیدا کی۔ اس کی پیدائش بےمعنی اور فضول نہیں۔ اس کو عقل، سمجھ اور ہدایت دی ہے۔ اور بتا دیا گیا ہے کہ یہ دنیا عمل اور امتحان کی دنیا ہے۔ آخرت میں حساب کتاب کے بعد سزا اور جزا ضرور ملے گی اگر یہ ڈر نہ ہو تو انسان شتر بےمہار کی طرح زندگی گزارنے لگے۔ اور 1 یوں بےاصول اور بےمقصد زندگی انسان کو سکون، چین اور نظم وضبط سے بالکل بےفکر کر دے تو پھر جنگل کی حیوانی زندگی اور انسان کی تہذیبی زندگی میں کوئی فرق ہی نہ رہ جائے۔ مذہبی عقیدے کی اسی اہمیت کی بنا پر سترھویں صدی کے آخر کے ایک نامور جج میتھوہیل نے کہا ہے۔ ” یہ کہنا کہ مذہب ایک فریب ہے، ان تمام ذمہ داریوں اور پابندیوں کو منسوخ کرنا ہے جن سے سماجی نظم کو برقرار رکھا جاتا ہے “۔ ) از ( Religion without revelation P-115 تمام مذاہب جو گزر چکے تمام رسول جو گزر چکے سب نے ہی توحید کی تعلیم دی امن و سکون اور تصور آخرت کا سبق دیا۔ مگر مذہب اسلام کی یہ خاصیت ہے کہ اس کی حفاظت اللہ نے اپنے ذمہ لی ہے۔ اور ہم مسلمانوں پر اس کا خاص فضل، خاص کرم اور مہربانی ہے۔ کہ ہم امت محمد ہیں۔ وہ بدنصیب لوگ ہیں جو اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ دعا : ” میں اس اللہ سے بخشش اور معافی چاہتی ہوں جو حی ّقیوم ہے اور اس کے حضور میں توبہ کرتی ہوں “۔ (ترمذی) خلاصہ سورة فاطر اس سورة مبارکہ میں انسان کے لیے کچھ ایسی بہترین حقیقتیں اس جہاں کی اور اگلے جہاں کی بتائی گئی ہیں جن کو ہم اپنے اوپر اللہ کا خاص فضل و کرم کہہ سکتے ہیں۔ اور وہ ہیں۔ بہترین معبود، بہترین رسول، بہترین کتاب، بہترین دین، بہترین انسان، بہترین زندگی دنیوی و آخروی، بہترین راستہ اور بہترین انعام۔ جس کو ہم اس طرح بیان کرسکتے ہیں کہ الہ العٰلمین بہترین معبود ہے۔ سیدنامحمد ﷺ بہترین رسول، قرآن پاک بہترین کتاب، اسلام بہترین دین، مسلمان بہترین انسان، بہترین زندگی تقویٰ کی زندگی اور بہترین راستہ اللہ و رسول کا پاکیزہ راستہ اور پھر بہترین انعام جنت الفردوس ہے۔ اس کے علاوہ، ہر معبود، ہر راستہ، ہر عقیدہ اور شیطان کی دوستی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بد ترین سزاء کا موجب بنتا ہے اور بد ترین ٹھکانا دوزخ بتایا گیا ہے۔ اللہ نے سب کچھ تفصیل سے بتا دیا ہے انسان کو اختیار دیا گیا ہے جو راستہ چاہے اختیار کرے۔ اور فرشتوں کو پیغام دینا سکھایا گیا ہے اور ایسی طاقت دی گئی ہے کہ حیرت انگیز رفتار سے اوپر سے نیچے سفر کرسکیں۔ عالمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ ذرہ ریگ کو دیا تو نے طلوع آفتاب شوق تیرا اگر نہ ہو میری نماز کا امام میرا سجود بھی حجاب میرا قیام بھی حجاب (علامہ اقبال)
Top