Anwar-ul-Bayan - Az-Zukhruf : 55
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكَ تَتَمَارٰى
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكَ : پس کون سی اپنے رب کی نعمتوں کے ساتھ۔ پس ساتھ کون سی اپنے رب کی نعمتوں کے تَتَمَارٰى : تم جھگڑتے ہو
(اے انسان ! ) تو اپنے پروردگار کی کون سی نعمت پر جھگڑے گا ؟
(53:55) فبای میںعاطفہ سببیہ ہے۔ ای استفہامیہ انکاریہ ہے۔ کونسی، کس کس۔ الاء جمع ہے الی کی۔ جس کے معنی نعمت کے ہیں۔ الا نعمتیں۔ احسانات۔ تتماری۔ مضارع واحد مذکر حاضر۔ تتماری (تفعل) مصدر سے۔ تو شک کرتا ہے یا کریگا۔ تو جھٹلاتا ہے یا جھٹلائے گا۔ تو جگڑا کرتا ہے یا کرے گا۔ تتماری صیغہ واحد مذکر حاضر میں خطاب کس کو ہے اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں :۔ (1) یہ خطاب نبی کریم ﷺ سے ہے لیکن مراد تمام عوام الناس ہیں۔ (2) یہ خطاب ہر شخص سے ہے۔ اے سننے والے تو اللہ تعالیٰ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائے گا۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ آیت میں مخاطب ولید بن مغیرہ ہے (ملاحظہ ہو آیات 33 تا 37 متذکرہ الصدر) مطلب یہ کہ اے انسان ! اقوام عاد وثمود، ونوح کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک و برباد کردیا۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں شک کرتے تھے۔ کہ یہ صرف اللہ رب العالمین کی عطا کردہ نہیں بلکہ ان کی عطاء میں وہ بت بھی شریک ہیں جن کی وہ پوجا کرتے تھے۔ اسی لئے جب پیغمبران الٰہی نے ان کی اس غلط فیمی کو دور کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے پیغمبروں سے جھگڑا شروع کردیا۔ تو کیا اے سامع تو بھی اسی کوتاہ نظری کا شکار ہوگیا اور اپنے لئے وہی انجام چاہے گا جو اقوال مذکورہ بالا کا ہوا۔
Top