Tafseer-e-Majidi - Yunus : 104
قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ شَكٍّ مِّنْ دِیْنِیْ فَلَاۤ اَعْبُدُ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لٰكِنْ اَعْبُدُ اللّٰهَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰىكُمْ١ۖۚ وَ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَۙ
قُلْ : آپ کہ دیں يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ : اے لوگو ! اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو فِيْ شَكٍّ : کسی شک میں مِّنْ : سے دِيْنِيْ : میرے دین فَلَآ اَعْبُدُ : تو میں عبادت نہیں کرتا الَّذِيْنَ : وہ جو کہ تَعْبُدُوْنَ : تم پوجتے ہو مِنْ دُوْنِ : سوائے اللّٰهِ : اللہ وَلٰكِنْ : اور لیکن اَعْبُدُ اللّٰهَ : میں اللہ کی عبادت کرتا ہوں الَّذِيْ : وہ جو يَتَوَفّٰىكُمْ : تمہیں اٹھا لیتا ہے وَاُمِرْتُ : اور مجھے حکم دیا گیا اَنْ : کہ اَكُوْنَ : میں ہوں مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنین
آپ کہہ دیجیے کہ اے لوگو اگر تم میرے دین کی طرف سے اشتباہ میں ہو،157۔ سو میں ان (معبودوں) کی عبادت نہیں کرتا، جن کی عبادت تم کرتے رہتے ہو اللہ کے سوا بلکہ میں (تو) اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو تمہاری جان قبض کرتا ہے،158۔ اور مجھے حکم ملا ہے کہ میں بھی ایمان لانے والوں میں ہوں
157۔ (اور تم پر یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ جس دین کی دعوت میں دے رہا ہوں وہ اصلا اور اپنی روح ومغز کے اعتبار سے ہے کیا) 158۔ یہاں داعی اسلام کی زبان سے اصلی و اساسی فرق دین اسلام ودین جاہلیت کے درمیان بیان کردیا ہے۔ ارشاد یہ کرایا جارہا ہے کہ اگر اب بھی ابہام و اشتباہ باقی ہے تو سن لو کہ بنیادی فرق میری دعوت اور تمہارے دین جاہلیت کے درمیان یہ ہے کہ تم سب شرک میں مبتلا ہو اور کسی نہ کسی صورت میں غیر اللہ کو معبود بنائے بیٹھے ہو اور میری دعوت خالص توحید کی ہے، میں اس خدا کی عبادت کی طرف بلارہا ہوں جو مطلق الاختیار ہے، تمہاری موت وزندگی دونوں پر حاکم ہے۔ (آیت) ” اللہ الذی یتوفکم “۔ بہت سی مشرک جاہلی قوموں نے خالق کسی اور کو سمجھا ہے۔ اور موت وہلاکت کا دیوتا کسی اور کو، عجب نہیں کہ مشرکین عرب بھی کچھ اسی قسم کے عقائد میں مبتلا ہوں، اور یہ نہ ہو جب بھی (آیت) ” یتوفکم “۔ یہ پہلو نمایاں طور پر سامنے لارہا ہے کہ موت تمام تراسی خدائے برحق کے ہاتھ میں ہے۔ سابقہ اسی سے پڑنے والا ہے، ڈرنا اسی سے چاہیے۔
Top