Baseerat-e-Quran - Yunus : 104
قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ شَكٍّ مِّنْ دِیْنِیْ فَلَاۤ اَعْبُدُ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لٰكِنْ اَعْبُدُ اللّٰهَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰىكُمْ١ۖۚ وَ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَۙ
قُلْ : آپ کہ دیں يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ : اے لوگو ! اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو فِيْ شَكٍّ : کسی شک میں مِّنْ : سے دِيْنِيْ : میرے دین فَلَآ اَعْبُدُ : تو میں عبادت نہیں کرتا الَّذِيْنَ : وہ جو کہ تَعْبُدُوْنَ : تم پوجتے ہو مِنْ دُوْنِ : سوائے اللّٰهِ : اللہ وَلٰكِنْ : اور لیکن اَعْبُدُ اللّٰهَ : میں اللہ کی عبادت کرتا ہوں الَّذِيْ : وہ جو يَتَوَفّٰىكُمْ : تمہیں اٹھا لیتا ہے وَاُمِرْتُ : اور مجھے حکم دیا گیا اَنْ : کہ اَكُوْنَ : میں ہوں مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنین
(اے نبی ﷺ آپ کہہ دیجیے کہ اے لوگو ! جس دین کو میں لے کر آیا ہوں۔ اگر تمہیں اس میں شک ہے تو میں تمہارے ان معبودوں کی عبادت و بندگی نہ کروں گا جنہیں تم نے اللہ کو چھوڑ کر اپنا معبود بنا رکھا ہے بلکہ میں تو اسی رب کی عبادت و بندگی کروں گا جو تمہیں موت دیتا ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ ایمان لانے والوں میں سے رہوں
لغات القرآن آیت نمبر 104 تا 107 لا اعبد (میں عبادت نہ کروں گا) یتوفی (وہ موت دیتا ہے) امرث (مجھے حکم دیا گیا ہے ) ان اکون (یہ کہ میں ہوجاؤں) اقم (قائم کیجیے) وجھک (اپنا چہرہ) حنیف (یکسو، سب سے کٹ کر محض اللہ کی عبادت کرنے والا) لاتدع (تونہ پکار) ان یمسک (اگر تجھے پہنچائے) بضر (کوئی نقصان (کاشف کھولنے والا) یردک (تجھے چاہے) بخیر (بھلائی) راد (لوٹانے والا ، ٹالنے والا) یصیب (وہ پہنچاتا ہے) تشریح : آیت نمبر 104 تا 107 اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے کہ اس نے انسانوں کو اتنی نعمتوں سے نوازا ہے کہ اگر وہ ان کو گننا چاہے تو شمار نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو جسم اور رو ح کی تسکین کے لئے جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان کا ذکر سورة رحمٰن میں بڑی تفصیل سے کیا گیا ہے جنات اور انسانوں کو خطاب کرتے ہوئے اکتیس مرتبہ اس جملے کو دھرایا گیا ہے کہ تم اے جن و انس اس کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے بڑی نعمت قرآن کریم اور پھر حسن بیان عطا فرمایا ہے۔ قرآن کریم میں جگہ جگہ اس بات کو وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ زمین و آسمان ، چاند ، سورج، ستارے اونچے اونچے پہاڑ، خوبصورت دریا اور ان کے سنگم درخت ان کے پھل ، سمندروں کے موتی یہ سب کچھ جنات اور انسانوں کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ زمین و آسمان، چاند، سورج اور ستارے اللہ کے حکم سے چل رہے ہیں۔ دنیا کی گھڑیاں غلط ہو سکتی ہیں لیکن اللہ نے چاند، سورج اور ستاروں کی جو رفتار مقرر کردی ہے اس میں ایک لمحہ کا بھی فرق نہیں پیدا ہوتا۔ یہ تمام چیزیں اپنے وجود میں سا قدر بےبس اور مجبور ہیں کہ یہ کسی کا نہ کچھ بگاڑ سکتی ہیں اور نفع پہنچا سکتی ہیں۔ انسان کی کتنی بڑی بھلو ہے کہ وہ ان بےبس اور عاجز مخلوقات کو اپنا معبود بنا کر ان سے توقع رکھتا ہے پتھروں کے بےجان بت جو اپنے وجود میں بھی انسانی ہاتھوں کے محتاج ہیں وہ کسی کو کیا دے سکتے ہیں اور کیا چھین سکتے ہیں۔ اگر کوئی شخص حضرت ابراہیم کی طرح بت خانہ میں گھس کر سارے بتوں کو توڑ پھوڑ کر رکھ دے تو وہ اپنے وجود کو بچا نہیں سکتے۔ ان کو معبود بنانا درحقیقت شرف انسانیت کی سب سے بڑی توہین ہے اور ایک جاہلانہ فعل ہے لیکن جو اپنے خیالات کے پوجنے والے ہوتے ہیں ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ساری دنیا ان کی طرح بےجان بتوں کو اپنا حاجت روا بنا لے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی زبان مبارک سے صاف اعلان کروا یا ہے کہ ” اے لوگو اگر تمہیں اس دین میں شک و شبہ ہے جو میں لے کر آیا ہوں تو یہ تمہارا اپنا فعل اور خیال ہے مجھ سے یا میرے ماننے والوں سے تم کبھی اس بات کو توقع مت کرنا کہ ہم ان کی عبادت و بندگی کریں گے جن کی کوئی حقیقت اور حیثیت نہیں ہے۔ کیونکہ مجھے تو میرے اس اللہ نے جس کے ہاتھ میں زندگی اور موت کا اختیار ہے یہ حکم دیا ہے کہ میں اللہ کے ان بندوں میں رہوں جو ایک اللہ پر یقین رکھتے ہیں۔ مجھے اللہ نے یہحکم دے رکھا ہے کہ میں اپنی ذات کو ہمیشہ اس دین حنیف کی طرف جھکائے رکھوں جو اللہ نے عطا فرمایا ہے اور کبھی شرک کے قریب بھی نہ جاؤں ۔ کیونکہ وہ جن کے ہاتھ میں میں نہ کسی کو نفع پہنچانے کا اختیار ہے اور نہ وہ کسی کو نقصان پہنچانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اگر کوئی مصیبت آجائے تو وہ اس کو دور کرنے سے عاجز ہیں ان کے سامنے جھکنے اور ان کی عبادت و بندگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اللہ تو وہ صاحب اختیار ہستی ہے کہ اگر کسی کو بھلائی عطا فرمانا چاہے تو کوئی بھی اتنی طاقت و قوت نہیں رکھتا کہ اس کو اس بھلائی کے دینے سے روک دے۔ وہ بہت زیادہ مغفرت کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے اور اپنی قدرت سے جو کچھ کرنا چاہے وہ کرتا ہے۔ وہ کسی کے سامنے بےبس اور مجبور نہیں ہے۔
Top