Tafseer-e-Majidi - Yunus : 61
وَ مَا تَكُوْنُ فِیْ شَاْنٍ وَّ مَا تَتْلُوْا مِنْهُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّ لَا تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا كُنَّا عَلَیْكُمْ شُهُوْدًا اِذْ تُفِیْضُوْنَ فِیْهِ١ؕ وَ مَا یَعْزُبُ عَنْ رَّبِّكَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ وَ لَاۤ اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِكَ وَ لَاۤ اَكْبَرَ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ
وَمَا تَكُوْنُ : اور نہیں ہوتے تم فِيْ شَاْنٍ : کسی حال میں وَّمَا تَتْلُوْا : اور نہیں پڑھتے مِنْهُ : اس سے مِنْ : سے۔ کچھ قُرْاٰنٍ : قرآن وَّلَا تَعْمَلُوْنَ : اور نہیں کرتے مِنْ عَمَلٍ : کوئی عمل اِلَّا : مگر كُنَّا : ہم ہوتے ہیں عَلَيْكُمْ : تم پر شُهُوْدًا : گواہ اِذْ تُفِيْضُوْنَ : جب تم مشغول ہوتے ہو فِيْهِ : اس میں وَمَا يَعْزُبُ : اور نہیں غائب عَنْ : سے رَّبِّكَ : تمہارا رب مِنْ : سے مِّثْقَالِ : برابر ذَرَّةٍ : ایک ذرہ فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَلَا : اور نہ فِي السَّمَآءِ : آسمان میں وَلَآ : اور نہ اَصْغَرَ : چھوٹا مِنْ : سے ذٰلِكَ : اس وَلَآ : اور نہ اَكْبَرَ : بڑا اِلَّا : مگر فِيْ : میں كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ : کتاب روشن
اور آپ جس حال میں بھی ہوں اور آپ اس (حال) میں قرآن (بھی) پڑھ رہے ہوں، اور تم لوگ بھی جو کوئی کام کررہے ہو ہم تمہارے برابر گواہ رہتے ہیں جب تم اسے کرنے لگتے ہو،93۔ اور آپ کے پروردگار سے ذرہ برابر (بھی کوئی چیز) غائب نہیں نہ زمین میں نہ آسمان میں اور نہ اس سے چھوٹی اور نہ بڑی مگر یہ کہ سب کتاب مبین میں ہیں،94۔
93۔ (تو ہم کو کسی کے بھی حال سے کسی حال میں غافل نہ سمجھنا) قرآن مجید کی متعدد آیتوں کی طرح یہ آیت بھی پوری طرح واضح اس وقت ہوتی ہے، جب اہل ضلال کے عقائد بھی پیش نظر ہوں، بعض جاہلی قوموں کا عقیدہ ہے کہ خدا تو ہے اور صفت علم سے متصف بھی ہے لیکن اس کا علم صرف قدیم ہے۔ اس کی واضح تردید میں ارشاد ہورہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو علم اس وقت بھی ہوتا رہتا ہے، جو کوئی فعل واقعۃ وعملا وقوع میں آنے لگتا ہے۔ (آیت) ” وما تتلوا منہ من قران “۔ رسول اللہ ﷺ کے احوال تو سب ہی اعلی تھے لیکن قرآن مجید پڑھنا اور قرآن کے ذریعہ تبلیغ وہدایت کرنا ان میں بھی ایک درجہ امتیاز رکھتا تھا۔ اس لئے اس کا ذکر خاص طور پر فرمایا گیا۔ التلاوۃ اعظم شؤنہ ﷺ ولذاخصت بالذکر (روح) (آیت) ” منہ ضمیر شان کی طرف ہے۔ جن مفسرین نے قران کی بابت سمجھی ہے وہ ” من قران “ کی تکرار سے تعظیم وتفخیم مراد لیتے ہیں۔ والضمیر للشان (کشاف) قال الفراء والزجاج الھاء فی منہ تعود علی الشان (قرطبی) من قران اعاد تفخیما کقولہ انی انا اللہ (قرطبی) (آیت) ” ولا تعملون “ خطاب ابھی صیغہ واحد (آیت) (ما تکون۔۔۔ ما تتلوا “ ) میں رسول اللہ ﷺ کی جانب تھا۔ اب صیغہ جمع میں آپ ﷺ کے ساتھ آپ ﷺ کی ساری امت سے بھی ہوگیا۔ 94۔ (شروع ہی سے مندرج) ایک گمراہی کا ابھی ابھی (آیت) ” شھودا اذ تفیضون فیہ “۔ سے سد باب ہوچکا ہے اور بتایا جاچکا ہے کہ حق تعالیٰ کا علم صرف قدیم ہی نہیں بلکہ عین حدوث واقعات کے وقت بھی ہوتا رہتا ہے۔ اب اس کے مقابل کی دوسری گمراہی کی تردید ہورہی ہے اور (آیت) ” فی کتب مبین “۔ لاکر یہ ارشاد ہورہا ہے کہ حق تعالیٰ کا علم صرف حدوث کے وقت نہیں ہوتا جیسا کہ اہل ضلال سمجھ رہے ہیں بلکہ روز ازل سے چھوٹی بڑی ہر شے لوح محفوظ میں ثبت ہے۔ یعنی اللوح المحفوظ مع علم اللہ تعالیٰ بہ (قرطبی) (آیت) ” وما یعزب۔۔۔ السمآء “۔ یعنی چھوٹی بڑی، ہر مقدار اور ہر بساط کی شے علم الہی میں موجود ہے۔ کوئی شے بھی اس کے احاطہ سے باہر نہیں۔ جاہلی قومیں کثرت سے ایسی ہوئی ہیں جنہوں نے خدا کو تو مانا ہے لیکن محدود العلم، ناقص العلم اور یونان ومصر کے فلسفیوں تک کو یہ تسلیم کرنے میں باک نہیں رہا ہے۔ آیت انہیں گمراہیوں کی تردید کررہی ہے۔ (آیت) ” فی الارض ولا فی السمآء “۔ عرف عام میں اس سے مراد دائرہ وجود وامکان ہوتا ہے۔ اور قرآن بھی انسانی ہی محاورہ میں نازل ہوا ہے۔ مراد یہ ہے کہ کوئی چیز کہیں بھی ہو۔ اے فی دائرۃ الوجود والامکان والتعبیرعنھا بالارض والسماء لان العامۃ لا تعرف سواھما (ابوسعود)
Top