Anwar-ul-Bayan - Yunus : 91
آٰلْئٰنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَ كُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ
آٰلْئٰنَ : کیا اب وَقَدْ عَصَيْتَ : اور البتہ تو نافرمانی کرتا رہا قَبْلُ : پہلے وَكُنْتَ : اور تو رہا مِنَ : سے الْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والے
(یہ) اب ! حالانکہ تو تو سرکشی ہی کرتا رہا قبل تک اور تو مفسدوں (ہی) میں شامل رہا،135۔
135۔ (سو اب نہ ایمان مقبول، نہ نجات آخرت کی کوئی صورت) (آیت) ” آلئن “۔ یہ اب ! جبکہ انکشاف آخرت شروع ہوچکا اور قبول ایمان کا وقت نہیں رہا۔ اتؤمن بالساعۃ فی وقت الاضطرار حین ادرکک الغرق وائست من نفسک (مدارک) (آیت) ” وقد عصیت قبل “۔ یعنی عین اس لمحہ سے قبل تک تیری ساری عمر تو ہماری مخالفت وسرکشی ونافرمانی میں گزری اور اب جب مشاہدہ ہمارے عذاب کا ہونے لگا اقرار کو چلا ہے۔ انما تؤمن عند نزول العذاب والایمان فی ھذا الوقت غیر مقبول (کبیر) (آیت) ” من المفسدین “۔ مفسد یہاں منکر اور باغی، گمراہ کرنے والے کے معنی میں ہے۔ اے الذین اضل الناس (ابن کثیر) حیرت ہے کہ قرآن کی ان تصریحات کے باوجود بھی صوفیہ غیر محققین کو فرعون کی نجات اور صحت ایمان پر اصرار ہے۔ ” اور بعض اکابر سے جو فرعون کے ایمان کی صحت منقول ہے وہ کسی شخص نے ان کی تصنیف میں الحاق کردیا ہے۔ چناچہ الیواقیت والجواہر میں اس میں تفصیل موجود ہے۔ “ (تھانوی (رح)
Top