Tafseer-e-Majidi - Hud : 41
وَ قَالَ ارْكَبُوْا فِیْهَا بِسْمِ اللّٰهِ مَجْرٖؔىهَا وَ مُرْسٰىهَا١ؕ اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَقَالَ : اور اس نے کہا ارْكَبُوْا : سوار ہوجاؤ فِيْهَا : اس میں بِسْمِ اللّٰهِ : اللہ کے نام سے مَجْرٖ۩ىهَا : اس کا چلنا وَمُرْسٰىهَا : اور اس کا ٹھہرنا اِنَّ : بیشک رَبِّيْ : میرا رب لَغَفُوْرٌ : البتہ بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اور (نوح (علیہ السلام) نے) کہا (آؤ) اس میں سوار ہوجاؤ اللہ ہی کے نام سے اس کا چلنا ہے اور اس کا ٹھیرنا،61۔ بیشک میرا پروردگار بڑا بخشنے والا ہے بڑا رحمت والا ہے
61۔ (اس لئے اس پر سوال ہو کر غرق کا اندیشہ بھی نہ کرنا) (آیت) ” قال ارکبوا “۔ ظاہر ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے اس قول کے مخاطب آپ کے عیال اور آپ کے متبعین ہیں۔ بسم اللہ “۔ سے مراد یہاں بامر اللہ یا باذن اللہ لی گئی ہے یعنی اس کا چلنا اور ٹھہرنا سب اللہ ہی کی قدرت اور حکم سے ہے۔ ای بقدرتہ اوبامرہ او باذنہ (روح) کان فی معزل من الکفار وکانہ انفرد عنھم فظن نوح (علیہ السلام) ان ذلک انما کان لانہ احب مفارقتھم (کبیر) (آیت) ” مجرھا “۔ عربی تلفظ میں ی کی آواز صرف یا معروف کی ہے چناچہ قرآن مجید کے قاری بھی ہر جگہ اسی قاعدہ کا لحاظ رکھتے ہیں۔ لیکن اس خاص موقع پر مجری کی ی کی آواز یائے مجہول کی نکلے گی اور اسے بجائے ” مجری “ کے ” مجرے “ ہی پڑھا جائے گا۔
Top