Tafseer-e-Majidi - Ar-Ra'd : 22
وَ الَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً وَّ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو صَبَرُوا : انہوں نے صبر کیا ابْتِغَآءَ : حاصل کرنے کے لیے وَجْهِ : خوشی رَبِّهِمْ : اپنا رب وَاَقَامُوا : اور انہوں نے قائم کی الصَّلٰوةَ : نماز وَاَنْفَقُوْا : اور خرچ کیا مِمَّا : اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے انہیں دیا سِرًّا : پوشیدہ وَّعَلَانِيَةً : اور ظاہر وَّيَدْرَءُوْنَ : اور ٹال دیتے ہیں بِالْحَسَنَةِ : نیکی سے السَّيِّئَةَ : برائی اُولٰٓئِكَ : وہی ہیں لَهُمْ : ان کے لیے عُقْبَى الدَّارِ : آخرت کا گھر
اور جو لوگ اپنے پروردگار کی رضامندی کی تلاش میں مضبوط رہتے ہیں اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہتے ہیں خفیہ بھی اور ظاہرطور پر بھی اور بدسلوکی کی حسن سلوک سے ٹالتے رہتے رہیں انہی کے حق میں نیک انجام ہے،45۔
45۔ حق تعالیٰ کی رضاء یہی لوگ حاصل کریں گے اور یہی لوگ رضاء الہی کے محل ومقام میں ہوں گے۔ یہ سب شناختیں انہیں صاحبان فہم کی بیان ہوئیں۔ (آیت) ” الذین۔۔ ربھم “۔ یعنی دین حق پر ہر طرح کی جسمانی صعوبتوں اور دماغی پریشانیوں کے باوجود قائم رہتے ہیں۔ اس صبر کے عموم میں ہر قسم کے احکام تشریعی اور مصائب تکوینی پر صبر شامل ہے۔ یدخل فی الصبر علی فعل العبادات والصبر علی ثقل الامراض والمضار والغموم والاحزان والصبر علی ترک المشتھیات وبالجملۃ الصبر علی ترک المعاصی وعلی ادآء الطاعات (کبیر) (آیت) ” سرا وعلانیۃ “۔ یعنی حسب موقع ومصلحت کبھی اس خرچ کا اظہار بھی کردیتے ہیں، اور کبھی اسے مخفی بھی رکھتے ہیں، مثلا جو رقم سلطنت اسلامی میں واجب الادا ہوا سے علانیہ سرکاری بیت المال میں داخل کرتے ہیں، اور جہاں اپنے تنگ دست عزیزوں، پڑوسیوں، مسافروں وغیرہ کی امداد ضروری دکھائی دیتی ہے وہاں اسے بالکل مخفی طور پر کرتے رہتے ہیں، (آیت) ” یدرء ون بالحسنۃ السیءۃ “۔ اس کے ایک معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ اپنی خطاؤں اور لغزشوں کو نیکیاں کر کرکے مٹاتے رہتے ہیں، اے یتبعون السیءۃ الحسنۃ فتمحوھا (بیضاوی) عن ابن عباس ؓ انہ قال یدفعون بالصالح من العمل السیء من العمل وھو معنی قولہ ان الحسنات یذھبن السیئات (معالم) (آیت) ” مما رزقنھم “۔ یعنی اپنی جائز و حلال کمائی سے، حرام آمدنی کا انتساب اللہ تعالیٰ کی جانب ہو ہی نہیں سکتا، قالت المعتزلۃ ذلک یدل علی انہ لا رزق الا الحلال ولو کان الحرام رزقا لکان قد رغب فی انفاق الحرام وانہ لایجوز (کبیر) (آیت) ” ابتغآء وجہ ربھم “۔ یعنی ان کے صبر وثابت قدمی سے مقصود دنیوی ناموری یا اور کچھ نہیں ہوتا، بلکہ محض اجر و رضاء الہی ہی مقصود رہتا ہے۔ معناہ انہ صبر لمجرد ثوابہ وطلب رضا اللہ تعالیٰ (کبیر) لاغیرہ من اغراض الدنیا (جلالین) (آیت) ” عقبی الدار “۔ یعنی جنت جو اس دنیا کے بعد کی اور آخری چیز ہے۔ اے عاقبۃ الدنیا وھی الجنۃ (مدارک)
Top