Tafseer-e-Majidi - Ar-Ra'd : 40
وَ اِنْ مَّا نُرِیَنَّكَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّكَ فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلٰغُ وَ عَلَیْنَا الْحِسَابُ
وَاِنْ : اور اگر مَّا نُرِيَنَّكَ : تمہیں دکھا دیں ہم بَعْضَ : کچھ حصہ الَّذِيْ : وہ جو کہ نَعِدُهُمْ : ہم نے ان سے وعدہ کیا اَوْ : یا نَتَوَفَّيَنَّكَ : ہم تمہیں وفات دیں فَاِنَّمَا : تو اس کے سوا نہیں عَلَيْكَ : تم پر (تمہارے ذمے) الْبَلٰغُ : پہنچانا وَعَلَيْنَا : اور ہم پر (ہمارا کام) الْحِسَابُ : حساب لینا
اور جس چیز کا ہم ان سے وعدہ کررہے ہیں اس میں کا کچھ حصہ خواہ ہم آپ کو دکھلادیں یا آپ کو وفات دے دیں تو آپ کے ذمہ تو صرف (احکام کا) پہنچا دینا ہے اور ہمارے ذمہ حساب لینا ہے،80۔
80۔ قبل اس کے کہ وہ عذاب موعود آئے، خواہ دنیا میں خواہ آخرت میں خواہ دونوں جگہ) ضمنا وتبعا اتنے جزو سے دو اور مسئلے بھی روشنی میں آگئے۔ (1) ایک یہ کہ آپ ﷺ کی وفات واقع ہوگی آپ ﷺ غیر فانی بنا کر نہیں بھیجے گئے ہیں۔ (2) دوسرے یہ کہ جن وعدوں اور دعو وں کا اظہار آپ ﷺ کی زبان سے کرایا گیا۔ ان میں سے بعض کا وقوع آپ ﷺ کے بعد ہی ہوگا۔ (آیت) ” الذی نعدھم “۔ یعنی عذاب الہی خصوصا اسی دنیا میں (آیت) ” وان مانرینک بعض الذی نعدھم “۔ یعنی آپ ﷺ کی زندگی ہی میں عذاب ان پر لے آئیں۔ یہ سب کافروں کے اس مطالبہ کے جواب میں کہا جارہا ہے کہ آخر عذاب ہم پر آکیوں نہیں جاتا ہے ؟ صوفیہ محققین نے آیت سے یہ نکالا ہے کہ طالب سالک پر اطاعت وامتثال بہرصورت لازم ہے۔ دنیا میں کشودواثر سے اور آخرت میں صلہ واکرام سے اسے بحث نہ ہونا چاہیے، الغرض عذاب جلد آئے یا بدیر، بہرصورت آپ زیادہ فکر و تشویش میں نہ پڑیں عذاب اپنے وقت معین پر آئے گا ضرور) آیت نے ایک بار پھر اس واضح حقیقت کو واضح تر کردیا کہ رسالت اور الوہیت کے حدود بالکل جدا گانہ ہیں خلط کی کوئی گنجائش ہی نہیں رسول، مقرب ترین رسول کا کام صرف تبلیغ احکام اور تبلیغ دین ہے باقی اس پر سزا وجزا سوال وباز پرس کا تعلق صرف فاطر کائنات سے ہے۔
Top