Tafseer-e-Majidi - Al-Hijr : 53
قَالُوْا لَا تَوْجَلْ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ
قَالُوْا : انہوں نے کہا لَا تَوْجَلْ : ڈرو نہیں اِنَّا نُبَشِّرُكَ : بیشک ہم تمہیں خوشخبری دیتے ہیں بِغُلٰمٍ : ایک لڑکا عَلِيْمٍ : علم والا
جب کہ وہ ان کے پاس آئے اور کہا (تم پر) سلام ہو (ابراہیم علیہ السلام) بولے ہم کو تم سے ڈرلگ رہا ہے،44۔
44۔ (کہ تم جو میرا پیش کیا ہوا ماحضر قبول نہیں کرتے ہو، تو کہیں دشمنی کے ارادہ سے تو نہیں آئے ہو) عرب، عراق وشام، کی قدیم تہذیب ومعاشرت میں ایک دستور یہ بھی تھا کہ ڈاکو، چور یا غارتگر جب کسی کی مہمانی قبول کرلیتے تھے تو اس کے بعد اسے نقصان نہیں پہنچاتے تھے۔ اور اجنبیوں اور مسافروں کے لباس میں اکثر یہی غارتگرہی چھپے ہوتے تھے۔ اس لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب ان نوواردوں کی مہمانی کرنی چاہی، اور انہوں نے اس کے قبول کرنے میں تامل کیا، تو قدرۃ آپ (علیہ السلام) کا ذہن اس طرف منتقل ہوا، کہ کہیں یہ کوئی جرائم پیشہ تو نہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان انسانی قالب میں آنے والے فرشتوں کو اب تک انسان ہی سمجھ رہے تھے۔ پیغمبری کا کوئی جزوغیب دانی ہرگز نہیں۔ حاشیے پہلے بھی گزر چکے ہیں۔
Top