Tafseer-e-Majidi - An-Nahl : 123
ثُمَّ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًا١ؕ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ
ثُمَّ : پھر اَوْحَيْنَآ : وحی بھیجی ہم نے اِلَيْكَ : تمہاری طرف اَنِ : کہ اتَّبِعْ : پیروی کرو تم مِلَّةَ : دین اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم حَنِيْفًا : یک رخ وَمَا كَانَ : اور نہ تھے وہ مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع)
پھر ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقہ کے طریقہ پر چلیے جو بالکل ایک رخ کے تھے، اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے،185۔
185۔ (تو پھر اے مشرکو، تم اپنے کو طریق ابراہیمی کا پیروکس منہ سے کہتے ہو ؟ ) (آیت) ” ثم اوحینا “۔ الخ۔ ثم یہاں اظہار فضیلت کے لیے ہے۔ یعنی علاوہ ان فضائل کے، سب سے بڑی فضیلت انہیں ہم نے یہ دی کہ خود محمد مصطفیٰ ﷺ کو ان کے طریقہ پر چلنے کا حکم دیا۔ فی ثم ھذہ مافیھا من تعظیم منزلۃ رسول اللہ ﷺ واجلال محلہ والایذان بان اشرف مااوتی خلیل اللہ ابراھیم من الکرامۃ واجل مااولی من النعمۃ اتباع رسول اللہ ﷺ ملتہ (کشاف) (آیت) ” ان اتبع ملۃ ابرھیم حنیفا “۔ اور وہ طریقہ ابراہیم (علیہ السلام) حنیف توحید کا مل کا تھا، چناچہ اب وہ طریقہ ابراہیمی طریقہ محمدی میں منحصر اور اسی کے مرادف ہو کر رہ گیا ہے۔ والمراد من ملۃ ابراہیم التوحید ونفی الشرک (روح) (آیت) ” حنیفا “۔ سب سے یکسو، یک رخ یعنی غیر اللہ سے رشتہ بالکل توڑے ہوئے۔ ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر 182۔ (آیت) ” ملۃ۔ ابرھیم۔ حنیفا۔ وماکان من المشرکین “۔ سب پر حاشیے سورة بقرہ، پ 1، رکوع 15 میں گزر چکے ہیں۔ سورة الانعام میں بھی اسی ملتی ہوئی ایک آیت آچکی ہے، یہاں چونکہ رسول اسلام ﷺ کو ملت ابراہیمی ہی کی تجدید کا حکم مل رہا ہے، اس لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس خصوصیت کو پھر دہرا دیا ہے کہ آپ (علیہ السلام) کی ملت بس توحید اور نفی شرک ہی کی تو تھی۔
Top