Tafseer-e-Majidi - Hud : 40
اِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْءٍ اِذَاۤ اَرَدْنٰهُ اَنْ نَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۠   ۧ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں قَوْلُنَا : ہمارا فرمانا لِشَيْءٍ : کسی چیز کو اِذَآ اَرَدْنٰهُ : جب ہم اس کا ارادہ کریں اَنْ نَّقُوْلَ : کہ ہم کہتے ہیں لَهٗ : اس کو كُنْ : ہوجا فَيَكُوْنُ : تو وہ ہوجاتا ہے
ہم جب کسی چیز (کے پیدا کرنے) کا ارادہ کرلیتے ہیں تو بس اس سے ہمارا اتنا ہی کہنا ہوتا ہے کہ ہوجا، بس وہ ہوجاتی ہے،59۔
59۔ (سو ایسے قادر مطلق کو مردہ اجسام میں دوبارہ جان ڈال دینا کیا مشکل ہے ؟ اور اس میں شبہ عقلی ہو ہی کیا سکتا ہے ؟ ) قولنا اور نقول سے یہ لازم نہیں آتا کہ حق تعالیٰ اس کلمہ کن کا (جو خود ایک دو حرفی حادث لفظ ہے) تلفظ بھی کرتا ہو مراد صرف اس قدر ہے کہ چھوٹی بڑی کوئی سی بھی چیز ہو، اس کی تکوین کے لئے، اس کے وجود میں آجانے کے لئے حق تعالیٰ کا محض ارادہ کافی ہے۔ ادھر ارادۂ الہی اس سے متعلق ہوا، اور ادھر معا اور فی الفور وہ شے عدم سے وجود میں آگئی۔ لشیء اور لہ دونوں میں ل تبلیغ کا ہے۔ والظاھر ان اللام فی لشیء وفی لہ للتبلیغ (بحر)
Top