Tafseer-e-Majidi - An-Nahl : 92
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ اَنْكَاثًا١ؕ تَتَّخِذُوْنَ اَیْمَانَكُمْ دَخَلًۢا بَیْنَكُمْ اَنْ تَكُوْنَ اُمَّةٌ هِیَ اَرْبٰى مِنْ اُمَّةٍ١ؕ اِنَّمَا یَبْلُوْكُمُ اللّٰهُ بِهٖ١ؕ وَ لَیُبَیِّنَنَّ لَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ مَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ
وَ : اور لَا تَكُوْنُوْا : تم نہ ہوجاؤ كَالَّتِيْ : اس عورت کی طرح نَقَضَتْ : اس نے توڑا غَزْلَهَا : اپنا سوت مِنْۢ بَعْدِ : بعد قُوَّةٍ : قوت (مضبوطی) اَنْكَاثًا : ٹکڑے ٹکڑے تَتَّخِذُوْنَ : تم بناتے ہو اَيْمَانَكُمْ : اپنی قسمیں دَخَلًۢا : دخل کا بہانہ بَيْنَكُمْ : اپنے درمیان اَنْ : کہ تَكُوْنَ : ہوجائے اُمَّةٌ : ایک گروہ هِىَ : وہ اَرْبٰى : بڑھا ہوا (غالب) مِنْ : سے اُمَّةٍ : دوسرا گروہ اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يَبْلُوْكُمُ : آزماتا ہے تمہیں اللّٰهُ : اللہ بِهٖ : اس سے وَلَيُبَيِّنَنَّ : اور وہ ضرور ظاہر کریگا لَكُمْ : تم پر يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت مَا : جو كُنْتُمْ : تم تھے فِيْهِ : اس میں تَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے تم
اور تم اس (عورت) کی طرح نہ ہوجانا جس نے اپنا سوت کا تے پیچھے اسے تار تار نوچ ڈالا،145۔ کہ تم بھی اپنی قسموں کو باہمی فساد کا ذریعہ بنانے لگو اس غرض سے کہ ایک دوسرے سے گروہ بڑھ جائے،146۔ اللہ اسی سے تو تمہاری آزمائش کرتارہتا ہے اور (ان کی حقیقت) تمہارے اوپر ظاہر کردے گا قیامت کے دن، جن چیزوں میں تم اختلاف کرتے رہے،147۔
145۔ (کہ کہیں تم بھی اس کی طرح اپنی قسموں کو، ان کی پختگی کے بعدتوڑ ڈالنے لگو) روایتوں میں آتا ہے کہ مکہ میں ایک دیوانی عورت تھی۔ دن بھر مشقت سے سوت کا تتی، اور پھر بیدردی سے اپنے ہاتھ سے تکا بوٹی کر ڈالتی، اولین مخاطبین قرآن اس سے خوب واقف تھے۔ اس کی مثال دے کر فرمایا ہے کہ کہیں تم اپنا حال اس کا سانہ کرلینا۔ 146۔ (کثرت یا ثروت میں یا اور کسی اعتبار سے) (آیت) ” اربی “ کے معنی ہیں، کہ عدد یا مال میں بڑھ جائے۔ ھی ازید عددا واوفر مالا (کشاف) وھذہ الزیادۃ قد تکون فی العدد وفی القوۃ وفی الشرف (کبیر) یعنی مثلا کافروں کے دو گروہوں میں باہم مخالفت ہوئی، اور تمہاری ایک فریق سے صلح ہے۔ لیکن تم نے پلا دوسری طرف جھکتا ہوا دیکھا، تو تمہیں بھی خیال آیا کہ اس پہلے گروہ سے ٹوٹ کر اسی دوسرے کے ساتھ ہولیا جائے، یہ صورت شریعت کی نظر میں ممنوع اور سخت ناپسندیدہ ہے۔ (آیت) ” تتخذذون ایمانکم دخلا بینکم “ کہ اس عہد شکنی اور حلف کی خلاف ورزی سے دوستوں میں بےاعتباری بڑھے گی اور دشمنوں میں ناگواری (آیت) ” دخلا “۔ دخل کے معنی دغل کی طرح فساد اور چھپی ہوئی عداوت کے ہیں۔ الدخل کنایۃ عن الفساد والعداوۃ المستنبطۃ کالدغل (راغب) اے مفسدۃ ودغلا (کشاف) (آیت) ” بعد قوۃ “۔ یعنی اس سوت کو خوب مضبوطی سے بٹ چکنے کے بعد، اے بعد ان قتلتہ قتلا شدیدا الان العرب تسمی شدۃ القتل قوۃ (جصاص) من بعد ابرام و احکام (بیضاوی) فقہاء مفسرین نے لکھا ہے کہ کسی عہد یا عبادت کو اپنے اوپر لازم کرلینے کے بعد پھر اسے پورا نہ کرنا، سوت کات چکنے کے بعد اسے نوچ ڈالنا ہی ہے۔ فمن عقد علی نفسہ عقدا اواوجب قربۃ اودخل فیھا ان لایتمھا فیکون بمنزلۃ التی نقضت غزلھا بعض بعد قوۃ (جصاص) فقہاء نے یہیں سے یہ مسئلہ بھی مستنبط کیا ہے کہ نفلی عبادت بھی شروع کرچکنے کے بعد اسے اتمام تک پہنچانا واجب ہوجاتا ہے، وھذا یوجب ان کل من دخل فی صلوۃ تطوع اوصوم نفل اوغیر ذلک من القرب ان لایجوز لہ الخروج منہ قبل اتمامہ) (جصاص) فرنگی قوموں نے قرآن مجید کی صرف اسی ہدایت پر عمل کرلیا ہوتا، تو آج دنیا کا نقشہ کتنا مختلف اور کتنا زیادہ پرامن ہوتا، نہ یہ روز روز کے نئے نئے معاہدے ہوتے کہ آج پر قوت فلاں قوم ہے، تو ساتھ اس کا دے دیا گیا، اور قدیم معاہد قوم سے عہد توڑ لیا گیا، اور نہ اس کے نتیجہ میں یہ روز روز کی جنگ اور بدامنی دنیا پر مسلط رہتی ! 147۔ (اور مختلف راہیں اختیار کرتے رہے تھے) (آیت) ” یبلوکم اللہ بہ۔ بہ “۔ میں ضمیر یا تو فقرہ (آیت) ” ان تکون امۃ “۔ کی طرف ہے، یعنی ایک گروہ کی افزائش قوت و ثروت سے آزماتا ہے۔ اور یا یہ مراد ہو کہ اللہ اپنے اس امر ونہی سے تمہیں آزماتا ہے۔ الضمیر لقولہ ان تکون امۃ (کشاف) اے بھایامرکم وینھا کم (کبیر) (آیت) ” یبلوکم “۔ یعنی یہی آزمائش کہ دیکھیں کہ اب بھی پاس وفا کون رکھتا ہے، اور پلاجھکتے دیکھ کر کون دوسری طرف خود ہی جھک جاتا ہے، فقہاء نے لکھا ہے کہ عہد کے بعد نقض عہد اگر آسان اور مفید نظر آئے، جب بھی وفائے عہد لازم ہے۔ (آیت) ” لیبینن لکم یوم القیمۃ “۔ قیامت کے دن کا فیصلہ عملا وعیانا ہوگا، ورنہ دلائل کے لحاظ سے تو آج بھی ہوچکا ہے۔
Top