Tafseer-e-Majidi - An-Nahl : 96
مَا عِنْدَكُمْ یَنْفَدُ وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ بَاقٍ١ؕ وَ لَنَجْزِیَنَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْۤا اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
مَا : جو عِنْدَكُمْ : تمہارے پاس يَنْفَدُ : وہ ختم ہوجاتا ہے وَمَا : اور جو عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے پاس بَاقٍ : باقی رہنے والا وَلَنَجْزِيَنَّ : اور ہم ضرور دیں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو صَبَرُوْٓا : انہوں نے صبر کیا اَجْرَهُمْ : ان کا اجر بِاَحْسَنِ : اس سے بہتر مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
جو کچھ تمہارے پاس ہے ختم ہوجائے گا اور جو اللہ کے پاس ہے باقی رہنے والا ہے،154۔ اور جو لوگ ثابت قدم رہے ہم ان کا اجر انہیں ضرور دے کر رہیں گے جو کچھ وہ اچھے کام کرتے رہے ہیں اس کے عوض میں،155۔
154۔ یعنی دنیا کا سارا ذخیرہ اولا تو وہ ہے ہی کتنا، اور پھر جتنا ہے، سریع الزوال کیسا ہے، آنا فانا ختم ہوجانے والا ،۔ اور اجر آخرت اول تو بےحساب وبے نہایت، اور پھر اس سے بڑھ کر یہ کہ دائم و لازوال، غیر منقطع، موجودہ ” مہذب “ دنیاعقاید میں جس شے کو سب سے زیادہ اور یکسر بھولی ہوئی ہے وہ یہی آخرت کی نعمتیں اور ان کی اہمیت ہے، فسق ومعصیت کی طرف لے جانے والی، اور تقوی وطاعت کی طرف سے بےپروا کردینے والی سب سے بڑھ کر یہی آخرت فراموشی ہے، اور اسی لئے قرآن مجید صدہامختلف پیرایوں سے اسی کی یاد دلاتا رہتا ہے۔ مرشدتھانوی (رح) نے فرمایا کہ یہ آیت صریح ہے آخرت کو دنیا پر ترجیح دینے کے باب میں۔ 155۔ ترہیب و تخویف کے ساتھ ساتھ قرآن مجید ترغیب وتشویق سے بھی کیسا کام لیتا رہتا اور ہر نیک کار کو جنت کا مشتاق کس کس طرح بناتا رہتا ہے۔ (آیت) ” الذین صبروا “۔ یعنی جو لوگ احکام دین پر قائم وثابت قدم رہے اور اس کے لئے ہر کزی جھیل لے گئے، صیغہ مخاطب سے یہ صیغہ غائب کی طرف دفعۃ انتقال عربی کے مشہور ومعلوم اسلوب بلاغت، طریق التفات کے مطابق ہے۔ (آیت) ” لنجزین “۔ ن ثقیلہ تاکید کلام کے لئے ہے۔ نون العظمۃ (روح)
Top