Tafseer-e-Majidi - Al-Israa : 7
اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ١۫ وَ اِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَا١ؕ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِیَسُوْٓءٗا وُجُوْهَكُمْ وَ لِیَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ لِیُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِیْرًا
اِنْ : اگر اَحْسَنْتُمْ : تم نے بھلائی کی اَحْسَنْتُمْ : تم نے بھلائی کی لِاَنْفُسِكُمْ : اپنی جانوں کے لیے وَاِنْ : اور اگر اَسَاْتُمْ : تم نے برائی کی فَلَهَا : تو ان کے لیے فَاِذَا : پھر جب جَآءَ : آیا وَعْدُ الْاٰخِرَةِ : دوسرا وعدہ لِيَسُوْٓءٗا : کہ وہ بگاڑ دیں وُجُوْهَكُمْ : تمہاری چہرے وَلِيَدْخُلُوا : اور وہ گھس جائیں گے الْمَسْجِدَ : مسجد كَمَا : جیسے دَخَلُوْهُ : وہ گھسے اس میں اَوَّلَ مَرَّةٍ : پہلی بار وَّلِيُتَبِّرُوْا : اور برباد کر ڈالیں مَا عَلَوْا : جہاں غلبہ پائیں وہ تَتْبِيْرًا : پوری طرح برباد
اگر اچھے کام کرو گے اپنے ہی لئے اچھائی کرو گے اور اگر برائی کرو گے تو بھی اپنے ہی حق میں،13۔ پھر جب پچھلی بار میعاد آئے گی (ہم دوسروں کو مسلط کردیں گے) تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور تاکہ (تمہاری) عبادت گاہ میں گھس پڑیں جیسا کہ اس میں (اگلے لوگ) اگلی بار گھس آئے تھے اور تاکہ یہ جس چیز پر بھی ان کا زور چلے اسے تہس نہس کرڈالیں،14۔
13۔ (اور خود ہی سزا بھگتوگے) یہ سب کچھ اسرائیلیوں سے اسی وقت ان کے پیغمبروں کی وساطت سے کہہ دیا گیا تھا۔ (آیت) ” ان احسنتم “۔ اس کے تحت میں ساری ہی نیکیاں اور طاعتیں آجاتی ہیں۔ لیکن خاص اشارہ اوپر معلوم ہوتا ہے کہ اگر تم نے انبیاء کا اتباع شروع کردیا۔ یہود کا اصل اور بنیادی جرم ہی اپنے انبیاء سے بار بار سرکشی اور نافرمانی تھی، توحید کے تو وہ بہرحال کسی نہ کسی صورت میں قائل ہی تھے۔ 14۔ یعنی جس طرح چھ صدیوں قبل کلدانی اور بابلی سپاہیوں نے تمہیں ہلاک وتباہ کرڈالا تھا اور تمہاری عبادتگاہ میں آگ لگادی تھی، اب کی بار رومی سپاہی عذاب الہی کے مؤکل بن کر تم پر نازل ہوں گے۔ ان پیش خبریوں کا عملا جس طرح ظہورہوا، اس کے لئے ملاحظہ ہو انگریزی تفسیر القرآن۔ (آیت) ” وعدالاخرۃ “۔ یعنی جن دو بار کا ابھی اوپر ذکر آچکا ہے، ان میں سے دوسری بار۔۔ 70 ء ؁ میں ٹایئٹس رومی کے عہد میں۔ پہلی سزا شریعت موسوی کے ترک وتحریف پر ملی تھی، اب یہ دوسری سزا رسالت عیسوی کی مخالفت و انکار پر دی جارہی ہے۔ (آیت) ” لیسوٓء ا۔ لیدخلوا۔ لیتبروا “۔ ان تینوں افعال میں ل۔ لام تعلیل ہے۔ مراد اس سے مقصود الہی تکوینی کا ظاہر کرنا ہے نہ کہ مقصود الہی تشریعی کا۔ مظہر ارادۂ الہی کا ہے نہ کہ رضائے الہی کا۔
Top