Tafseer-e-Majidi - Maryam : 25
وَ هُزِّیْۤ اِلَیْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسٰقِطْ عَلَیْكِ رُطَبًا جَنِیًّا٘
وَهُزِّيْٓ : اور ہلا اِلَيْكِ : اپنی طرف بِجِذْعِ : تنے کو النَّخْلَةِ : کھجور تُسٰقِطْ : جھڑ پڑیں گی عَلَيْكِ : تجھ پر رُطَبًا : تازہ تازہ جَنِيًّا : کھجوریں
اور اس کھجور کے تنہ کو اپنی طرف ہلاؤ اس سے تم پر تروتازہ خرمے گریں گے،36۔
36۔ یہ تروتازہ خرموں کا گرنا اگر بہ طریق اعجاز خرق عادت نہ تھا تو ظاہر ہے کہ مریم (علیہ السلام) کا وضع حمل ایسے ہی موسم میں ہوا ہوگا جو ملک شام میں کھجوروں کے تیار ہونے کا زمانہ ہوتا ہے ...... ولادت مسیح (علیہ السلام) کا زمانہ تقریبی وتخمینی طور پر تو اس سے بآسانی متعین ہوسکتا ہے۔ یونانی اطبا نے تازہ خرموں کو زچہ خانہ کے لئے بہترین غذا تسلیم کیا ہے۔ (آیت) ” سر یا “۔ بہتی ہوئی نہر۔ اے نھرا یسری (راغب) اتفق المفسرون الاالحسن وعبد الرحمن ابن زید ان السری ھو النھر (کبیر) عن ابن عباس السری النھر وبہ قال عمروبن میمون نھر تشرب منہ (ابن کثیر) وقال السدی ھو النھر واختار ھذا القول ابن جریر وقد وردفی ذلک حدیث مرفوع (ابن کثیر) مرشدتھانوی (رح) نے فرمایا کہ یہاں اشارہ اس طرف ہے کہ تحصیل رزق میں بھی فی الجملہ سعی کرنا مطلوب ہے اور توکل کے منافی نہیں۔
Top