Tafseer-e-Majidi - Maryam : 48
وَ اَعْتَزِلُكُمْ وَ مَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ اَدْعُوْا رَبِّیْ١ۖ٘ عَسٰۤى اَلَّاۤ اَكُوْنَ بِدُعَآءِ رَبِّیْ شَقِیًّا
وَاَعْتَزِلُكُمْ : اور کنارہ کشی کرتا ہوں تم سے وَمَا : اور جو تَدْعُوْنَ : تم پرستش کرتے ہو مِنْ دُوْنِ : سوائے اللّٰهِ : اللہ وَاَدْعُوْا : اور میں عبادت کروں گا رَبِّيْ : اپنا رب عَسٰٓى : امید ہے اَلَّآ اَكُوْنَ : کہ نہ رہوں گا بِدُعَآءِ : عبادت سے رَبِّيْ : اپنا رب شَقِيًّا : محروم
اور میں کنارہ کرتا ہوں تم لوگوں سے اور ان سے بھی جنہیں تم لوگ خدا کے سوا پکارتے ہو،72۔ اور میں تو اپنے پروردگار ہی کو پکاروں گا یقین ہے کہ میں اپنے پروردگار کو پکار کر محروم نہ رہوں گا،73۔
72۔ یعنی قلبا واعتقادا تو میں پہلے ہی سے علیحدہ تھا، اب سکونت بھی یہاں کی چھوڑے دیتا ہوں، چناچہ اس کے بعد آپ ملک شام کو ہجرت فرماگئے تو ان کے مخاطبین اول، مشرکین عرب کے لیے اس قصہ ابراہیمی میں خصوصیت کے ساتھ سبق ہدایت موجود ہے۔ وہ بھی نسل ابراہیمی سے تھے اور پنے کو پیرو بھی انہیں کے دین کو ظاہر کرتے تھے۔ (آیت) ” واعتزلکم “۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اس میں معاند سے یکسو ہوجانے کی تعلیم ہے۔ 73۔ (بہ خلاف مشرکوں کے، جو اپنی معبودوں کو پکار کر محروم ہی رہتے ہیں) حضرت ابراھیم (علیہ السلام) پیغمبر ہیں، اور پیغمبر بھی کیسے جلیل القدر۔ اللہ کے خلیل۔ اس پر دعوی کے ساتھ یہ نہیں کہتے کہ میری دعا قبول ہی ہوجائے گی۔ بلکہ عبدیت کی پوری شان تواضع کے ساتھ اس کی صرف امید ظاہر کرتے ہیں۔
Top