Tafseer-e-Majidi - Maryam : 55
وَ كَانَ یَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ١۪ وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا
وَكَانَ يَاْمُرُ : اور حکم دیتے تھے اَهْلَهٗ : اپنے گھروالے بِالصَّلٰوةِ : نماز کا وَالزَّكٰوةِ : اور زکوۃ وَكَانَ : اور وہ تھے عِنْدَ رَبِّهٖ : اپنے رب کے ہاں مَرْضِيًّا : پسندیدہ
اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے رہتے تھے اور وہ اپنے پروردگار کے نزدیک پسندیدہ تھے،83۔
83۔ یعنی آپ اللہ کے مقبول و برگزیدہ بندہ تھے، نہ کہ خدانخواستہ مردود وغیر مقبول، جیسا کہ یہود اور نصرانیوں نے گڑھ لیا ہے، اللہ کے ہاں پسندیدہ تو وہی ہوسکتا ہے، جو ادائے طاعات و عبادات میں درجہ کمال پر ہو۔ وھو فی نھایۃ المدح لان المرضی عند اللہ ھو الفائز فی کل طاعاتہ باعلی الدرجات (کبیر) (آیت) ” اھلہ “۔ آپ کی بیوی صاحبہ بھی مصر ہی کی ایک خاتون تھیں، توریت میں ہے :۔” اور وہ فاران کے بیابان میں رہا، اور اس کی ماں نے ملک مصر سے ایک عورت اس کے بیاہنے کو لی “۔ (پیدائش۔ 21: 21) اھل سے مراد محض گھروالے بھی ہوسکتے ہیں، جیسا کہ امام رازی اور صاحب کشاف وصاحب بیضاوی نے لیا ہے۔ اور تمام امت بھی مراد ہوسکتی ہے، جیسا کہ صاحب معالم و صاحب جلالین کا خیال ہے۔ اور حسن بصری تابعی سے بھی منقول ہے۔ اگر گھر والے بھی مراد لیے جائیں تو معنی یہ ہوں گے کہ آپ نے تبلیغ شروع ہی انہیں لوگوں سے کی۔ قیل کان یبدا باھلہ فی الامر بالصلاح والعبادۃ لیجعلھم قدوۃ لمن سواھم (کبیر) (آیت) ” یامر ...... الزکوۃ “۔ یہ وصف ایک پیغمبر کے سلسلہ فضائل میں بیان ہورہا ہے اس سے ظاہر ہے کہ اپنے اعزہ، اقارب و احباب کو عبادات بدنی ومالی کی ترغیب دلاتے رہنا کتنی بڑی فضیلت کی چیز ہے۔
Top