Tafseer-e-Majidi - Maryam : 62
لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْهَا لَغْوًا اِلَّا سَلٰمًا١ؕ وَ لَهُمْ رِزْقُهُمْ فِیْهَا بُكْرَةً وَّ عَشِیًّا
لَا يَسْمَعُوْنَ : وہ نہ سنیں گے فِيْهَا : اس میں لَغْوًا : بےہودہ اِلَّا سَلٰمًا : سوائے سلام وَلَهُمْ : اور ان کے لیے رِزْقُهُمْ : ان کا رزق فِيْهَا : اس میں بُكْرَةً : صبح وَّعَشِيًّا : اور شام
اس (جنت) میں وہ کوئی فضول بات نہ سنیں گے۔ ہاں البتہ سلام (کی آوازیں سنیں گے) اور انہیں اس میں ان کا کھانا صبح وشام (ملتا رہے گا) ،93۔
93۔ یعنی برابر اور علی الدوام۔ (آیت) ” لا یسمعون فیھا لغوا الا سلما “۔ اہل جنت کے کانوں میں کوئی بات بےتکی یا نکمی پڑنے ہی نہ پائے گی، جتنی آوازیں بھی آئیں گی، سب خوشگوار اور دل پسند ہی ہوں گی۔ خواہ یہ آوازیں فرشتوں کی ہوں یا دوسرے جنتوں کی۔ اے لا یسمعون فیھا الا قولا یسلمون فیہ من العیب والنقیصۃ (مدارک) (آیت) ” بکرۃ وعشیا “۔ اردو محاورہ میں بھی صبح وشام سے ایک مراد دوام ہوتی ہے، نہ کہ طلوع و غروب آفتاب کے دو متعین وقت۔ ع : چسکا پڑا ہے جام کا، شغل ہے صبح وشام کا : عربی محاورہ میں بھی مراد یہی ہے بلکہ اس سیاق میں تو اس کے سوا کوئی اور مراد ہو ہی نہیں سکتی۔ جنت میں ظلمت ہی سرے سے کہاں ہوگی، جس سے یہ متعارف صبح وشام پیدا ہوتے ہیں۔ قیل اراد دوام الرزق وورودہ کما تقول انا عند فلان صباحا ومساء وبکرۃ وعشیا ترید الدیمومۃ ولا تعقد الوقتین المعلومین (کشاف)
Top