Tafseer-e-Majidi - Maryam : 64
وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ١ۚ لَهٗ مَا بَیْنَ اَیْدِیْنَا وَ مَا خَلْفَنَا وَ مَا بَیْنَ ذٰلِكَ١ۚ وَ مَا كَانَ رَبُّكَ نَسِیًّاۚ
وَمَا : اور ہم نَتَنَزَّلُ : نہیں اترتے اِلَّا : مگر بِاَمْرِ : حکم سے رَبِّكَ : تمہارا رب لَهٗ : اس کے لیے مَا بَيْنَ اَيْدِيْنَا : جو ہمارے ہاتھوں میں ( آگے) وَمَا : اور جو خَلْفَنَا : ہمارے پیچھے وَمَا : اور جو بَيْنَ ذٰلِكَ : اس کے درمیان وَمَا : اور نہیں كَانَ : ہے رَبُّكَ : تمہارا رب نَسِيًّا : بھولنے والا
اور ہم (یعنی فرشتہ) نازل نہیں ہوتے بجز آپ کے پروردگار کے حکم کے،95۔ اسی کی (ملک) ہے جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ ہمارے پیچھے ہے اور جو کچھ اس کے درمیان ہے اور آپ کا پروردگار بھولنے والا نہیں،96۔
95۔ (ہم کوئی خود مختار تو ہیں نہیں، جو اپنے ارادہ سے آتے جاتے رہیں۔ ہم تو تمامتر امر الہی کے تابع و محکوم ہیں) یہ قول حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی زبان سے ادا کیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ پر محبوب حقیقی کے پیامات کا جو اشتیاق غالب رہتا تھا اس کے تقاضا سے ایک روز آپ (علیہ السلام) نے جبرائیل (علیہ السلام) سے کہا کہ اور زیادہ کیوں نہیں آتے ہو۔ اس کا جواب یہاں جبرئیل (علیہ السلام) کی زبان سے ادا ہورہا ہے۔ حدیث صحیح میں یہی تفسیر آئی ہے۔ قال النبی ﷺ لجبریل ما یمنعک ان تزورنا اکثر مما تزورنا فنزلت وما نتنزل الا الخ (بخاری۔ عن ابن عباس ؓ ۔ کتاب التفسیر) (آیت) ” بامر “۔ امر کے معنی آیت میں اذن کے بھی لیے گئے ہیں اور حکم کے بھی، اور لغۃ وہ دونوں کے لیے عام ہے۔ معناہ الاذن بدلیل سبب النزول المذکور ویحتمل الحکم ویحتمل ان یکون المراد ماھو اعم من ذلک (فتح) 96۔ (جیسا کہ بعض جاہلی مشرک قوموں نے قرار دے رکھا ہے) (آیت) ” لہ .... ذلک “ مالکیت اسی کے لیے محصوص ہے ہر مخلوق کی، زمانا بھی اور مکانا بھی۔ ہمارا ارادہ تو تمامتر ارادہ الہی کا مسخر و محکوم ہے۔ وہی جب اور جہاں چاہے ہمیں بھیجے۔ الغرض ان امرنا موکول الی اللہ تعالیٰ یتصرف فینا بحسب مشیئتہ وارادتہ و حکمتہ (کبیر) لا ننتقل من کان الی زمان ولا نتنزل فی زمان دون زمان الامامرہ ومشیئتہ (بیضاوی) (آیت) ” وما کان ربک نسیا “۔ اس کے لیے اس کا احتمال ہی نہیں کہ کہیں ہمارا بھیجنا مصلحت ہو اور وہ بھول جائے۔
Top