Tafseer-e-Majidi - Maryam : 72
ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْهَا جِثِیًّا
ثُمَّ : پھر نُنَجِّي : ہم نجات دینگے الَّذِيْنَ اتَّقَوْا : وہ جنہوں نے پرہیزگاری کی وَّنَذَرُ : اور ہم چھوڑ دینگے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع) فِيْهَا : اس میں جِثِيًّا : گھٹنوں کے بل گرے ہوئے
پھر انہیں ہم نجات دے دیں گے جو (اللہ سے) ڈرتے تھے اور ظالموں کو اسی میں پڑا رہنے دیں گے گھٹنوں کے بل گرے ہوئے،105۔
105۔ (اور ان ظالموں سے مراد کافر ہی ہیں) (آیت) ” الذین اتقوا “۔ اللہ سے ڈرتے تھے اور اس لیے مومن بھی تھے۔ درجہ ضروری میں متقی تو ہر مومن ہوتا ہے۔ اس لیے (آیت) ” الذین اتقوا “۔ سے مراد مومنین ہی لیے گئے ہیں۔ اے اتقوالشرک وھم المومنون (معالم) قال ابن عباس المتقی ھو الذی اتقی الشرک یقول لا الہ الا اللہ واعلم ان الذی قالہ ابن عباس ھو الحق الذی یشھد الدلیل بصحتہ (کبیر) جو مومن کامل ہیں انہیں تو کسی تکلیف کی ہوا بھی نہ لگنے پائے گی بلکہ دوزخ کی حالت کا معاینہ اور پھر اس سے اپنی محفوظیت کا تقابل تو اور زیادہ ان میں فرح و سرور کی کیفیت پیدا کرے گا۔ اذا شاھدو اذلک العذاب صار ذلک سببا لمزید التذاذھم بنعیم الجنۃ (کبیر) البتہ جو مومنین ناقص ہیں انہیں کچھ تکلیف اٹھانے کے بعد ہی نجات ملے گی، آیت میں جو لوگ مخاطبت صرف نافرمانوں سے سمجھتے ہیں، انہوں نے (آیت) ” الذین اتقوا “۔ سے مراد یہ لی ہے کہ ان کے اندر باوجود معاصی حقیقت ایمان موجود تھی، وہ بعد چندے نجات پاجائیں گے اور جو بالکل ظالم ہیں کافر ہی ہیں، وہ اس میں پڑے سڑا کریں گے۔
Top