Tafseer-e-Majidi - Maryam : 76
وَ یَزِیْدُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اهْتَدَوْا هُدًى١ؕ وَ الْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّ خَیْرٌ مَّرَدًّا
وَيَزِيْدُ : اور زیادہ دیتا ہے اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ اهْتَدَوْا : جن لوگوں نے ہدایت حاصل کی هُدًى : ہدایت وَالْبٰقِيٰتُ : اور باقی رہنے والی الصّٰلِحٰتُ : نیکیاں خَيْرٌ : بہتر عِنْدَ رَبِّكَ : تمہارے رب کے نزدیک ثَوَابًا : باعتبار ثواب وَّخَيْرٌ : اور بہتر مَّرَدًّا : باعتبار انجام
اور اللہ ہدایت والوں کی ہدایت بڑھاتا ہے اور جو نیک کام باقی رہنے والے ہیں وہ آپ کے پروردگار کے نزدیک ثواب میں بھی بہتر ہیں اور انجام میں بھی بہتر،111۔
111۔ یعنی ایک تو وہ نعمتیں خود ہی اعلی درجہ کی، اور پھر باقی اور پائدار اور غیر منقطع۔ گویا آخری حالت اہل ایمان ہی کی بہتر ہوگی، بلحاظ کیفیت بھی بلحاظ کمیت بھی۔ (آیت) ” ویزید اللہ الذین اھتدوا ھدی “۔ تو مومن کا اصل سرمایہ تو یہی ہدایت خداداد ہے، اور اس پر کوئی حد مقرر نہ ہونے سے مفہوم یہ ہوا کہ باطنی ومعنوی ترقی کی کوئی حد نہیں۔ دوسرے عارفین نے کہا ہے کہ ایمان کے لیے مراتب متفاوت ہیں، جس جس طرح اصل مقصود غیر منتہی ہے، قصد ومنزل بھی غیر منتہی ہیں اور ہر سالک کے لیے ہادی کی ضرورت باقی ہے۔ (آیت) ” البقیت الصلحت “۔ سے مراد علاوہ ایمان کے کل اعمال صالحہ ہیں جن کا ثواب دائمی اور اجر غیر منقطع ہے نہ کہ کوئی مخصوص و متعین عبادت۔ قال المحققون انھا الایمان والاعمال الصالحۃ لان نفعھا یدوم ولا یبطل (کبیر)
Top