Tafseer-e-Majidi - Maryam : 97
فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِیْنَ وَ تُنْذِرَ بِهٖ قَوْمًا لُّدًّا
فَاِنَّمَا : پس اس کے سوا نہیں يَسَّرْنٰهُ : ہم نے اسے آسان کردیا ہے بِلِسَانِكَ : آپ کی زبان پر لِتُبَشِّرَ بِهِ : تاکہ آپ خوشخبری دیں اس کے ساتھ الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں وَتُنْذِرَ بِهٖ : اور ڈرائیں اس سے قَوْمًا لُّدًّا : جھگڑالو لوگ
سو ہم نے اس (قرآن) کو آپ کی زبان میں اس لیے آسان کردیا کہ آپ اس کے ذریعہ سے پرہیزگاروں کو خوش خبری سنائیں اور اس کے ذریعہ سے آپ جھگڑالو لوگوں کو ڈرائیں،130۔
130۔ آیت سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ قرآن کی آسانی صاحب قرآن پر اسی غرض سے ہے کہ وہ اس کے مطالب کو سمجھ کر ان سے بشارت اور انذار دونوں کا کام لیں۔ اور اسی سے فقہاء نے یہ نکالا ہے کہ جس پر قرآن آسان ہوجائے یعنی علماء وماہرین فن۔ ان پر واجب ہے کہ قرآن کی تعلیم وتذکیر کرتے رہیں (آیت) ” المتقین “۔ مراد مومنین ہیں کہ شرک وکفر سے متقی ہر مومن ہوتا ہی ہے۔ المتقین ال مومنین (مدارک) (آیت) ” قوما لدا “۔ بڑی جھگڑا لو قوم سے مراد کون سی قوم ہے ؟ ظاہر ہے کہ کل وہ منکر اسلام قومیں جو رسول اللہ ﷺ کی مخاطب اول تھیں لیکن جس تفصیل اور شدت کے ساتھ اس سورت میں عقیدہ ولدیت الہی کا رد کیا گیا ہے اس سے اشارہ یہ نکلتا ہے کہ خصوصیت کے ساتھ مراد مسیحی اقوام ہیں اور تاریخ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس ساڑھے تیرہ سو برس کے عرصہ میں مسلمانوں کو مقابلہ بھی سب سے زیادہ مسیحیوں ہی کا کرنا پڑا ہے۔ سورت میں خود لفظ رحمن کا بار بار آنا اور مادہ رحمت کا تو اس سے بھی زیادہ کثرت کے ساتھ آنا، اس امر پر گواہ ہے کہ سورت کا مقصود سب سے زیادہ خدائے تعالیٰ کی صفت رحم پر زور دینا اور اس کی رحمت کو مطلق اور بلا بدل ومعاوضہ صورت میں پیش کرنا ہے۔ مسیحیوں کو سب سے بڑا دھوکا اللہ کی صفت رحمت ہی سے لگا ہے۔ اور اسی ایک صفت کے نہ سمجھنے سے وہ مسیح پرستی کے شرک میں جاپڑے ہیں۔ مسیحیت کا سارا فلسفہ دو لفظوں میں یہ ہے کہ بندوں کی گنہگاری دیکھ کر خدا ان سے روٹھ گیا اور اس کی صفت عدل کا تقاضا یہ ہوا کہ سب کو جہنم میں جھونک دینا چاہیے۔ لیکن اس کا رحم وکرم اس پر آمادہ نہیں ہوتا تھا۔ اس کی تدبیر اس نے یہ کی کہ وہ خود ایک انسان کے قالب میں ظاہر ہو کر دنیا میں آئے یا اپنے ایک اقنوم کو اپنا بیٹا بنا کر بھیجے اور ساری مخلوق کے گناہوں کا بوجھ اپنے اوپر لے کر سب کی طرف سے کفارہ کو تیار ہوجائے، یعنی خود صلیب پر موت پا کر ایک مختصر مدت (تین دن) کے لئے دوزخ میں چلا جائے۔ اور سب کی طرف سے معاوضہ بن کر اور سب کو نجات دلا دے، گویا خدا بلامعاوضہ، بلاکفارہ، بلابدل رحم ومغفرت سے کام لے ہی نہیں سکتا ! مسیحیت کے اس سارے بنیادی فلسفہ کی تردید کے لئے قرآن کا ایک لفظ رحمن کافی ہے، یعنی اسلام کا خدا ایسا ہے جو مطلقا رحم پر قادر ہے۔ اپنی صفت رحمت کے ظہور کیلئے بےبسی اور مجبوری کے ساتھ کفارہ ومعاوضہ کا انتطار نہیں کیا کرتا۔
Top