Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 10
فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ١ۙ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ١ۙ۬ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ
فِىْ قُلُوْبِهِمْ : ان کے دلوں میں مَّرَضٌ : بیماری ہے فَزَادَھُمُ : پس زیادہ کیا ان کو / بڑھایا ان کو اللّٰهُ : اللہ نے مَرَضًا : بیماری میں وَ : اور لَھُمْ : ان کے لئے عَذَابٌ : عذاب ہے اَلِيْمٌ : درد ناک / المناک بِمَا : بوجہ اس کے جو كَانُوْا : تھے وہ يَكْذِبُوْنَ : جھوٹ بولتے
ان کے دلوں میں بیماری ہے27 ۔ سو اللہ نے بڑھا دی ان کی بیماری28 ۔ اور ان کے لیے عذاب درد ناک (ہونا) ہے۔ : اس لئے کہ وہ جھوٹ کہتے تھے29
27 (کفر کی اور نفاق کی اور شک کی، جو انہوں نے اپنے ہاتھوں پیدا کر رکھی ہے) شک ونفاق و خلاف وظلمۃ (ابن عباس ؓ دوسرا پہلوان کم اعتقادوں کے مرض کا یہ تھا کہ جوں جوں مسلمانوں کو ترقیاں اور کامیابیاں حاصل ہوتی جاتی تھیں، ان کے رشک وحسد میں بھی ترقی ہوتی جاتی تھی، چناچہ ہمارے ائمہ تفسیر کی نظر سے یہ پہلو بھی نظر انداز نہیں ہونے پایا ہے والمعنی ان المنافقین مرضت قلوبھم لھا۔ اواثبات امرالنبی ﷺ واستعلاء شانہ یوما فیوما (کبیر) والمرادبہ ھنا ما فی قلوبھم۔۔ من الغل والحسد والبغضاء لان صدورھم کانت تقلی رسول اللہ ﷺ وال مومنین (کشاف) مرض لغوی اعتبار سے نام ہے انسان کے حالت طبعی سے خروج کا۔ المرض الخروج عن الاعتدال الخاص بالانسان (راغب) رذائل نفسانی پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے اور مجازا نفاق وکفر کو بھی مرض سے تعبیر کیا جاتا ہے کہ وہ انسان کے لیے ادراک فضائل اور تحصیل حیات اخروی کی راہ میں حائل ہوجاتے ہیں (راغب) مرشد تھانوی مدضلہ نے فرمایا کہ امراض قلب کا معاصی کے معنی میں اثبات خود قرآن مجید سے ہوگیا۔ 28 (رسول، اسلام اور جماعت مومنین کو مزید ترقیاں اور فتح مندیاں دے دے کر۔ یا اپنے کلام کے مسلسل نزول سے) منافقوں کے دل کے روگ کو ترقی دو طریقوں سے ہوتی رہی۔ یا تو یوں کہ جوں جوں اسلام کو مزید غلبہ واقتدار حاصل ہوتا گیا، ان لوگوں کے دل کی کڑھن اور جلن بڑھتی گئی۔ اور یا یوں کہ کلام الہی کی ہر ہر آیت کے نزول کے ساتھ ان کے غیظ وبغض میں اور اضافہ ہوتا گیا۔ اہل تفسیر نے یہ دونوں پہلو اختیار کیے ہیں۔ کلما زاد رسولہ نصرۃ وتبسطا فی البلاد ونقصا من اطراف الارض ازدادوا حسدا وغلا وبعضا (کشاف) کلما انزل علی رسولہ الوحی کفروا بہ فازدادوا کفرا الی کفرھم (کشاف) (آیت) ” فزادھم “ میں حرفبہت اہم ہے یہ گویا اس کا اعلان ہے کہ آگے جس فعل کا ذکر آرہا ہے، وہ محض بطور ثمرہ یا نتیجہ کے پیدا ہوا ہے۔ والفاء للدلالۃ علی ترتب مضمونھا علیہ (ابوسعود) حق تعالیٰ کی جانب اس قسم کے افعال کا انتساب صرف مجازی حیثیت رکھتا ہے۔ یعنی یہ نہیں کہ اللہ نے خواہ مخواہ ان سے یہ افعال کرا چھوڑے۔ اس نے تو صرف وہ حالات واسباب پیدا کردیئے، جن سے ان بدنصیبوں نے اپنے مرض کے بڑھانے کا کام لیا، ورنہ اگر وہ اپنی عقل و ارادہ کا صحیح استعمال کرتے، تو انہیں اسباب و حالات سے ہدایت بھی پاسکتے تھے، وکان اسناد الزیادۃ الی اللہ تعالیٰ من حیث انہ مسبب من فعلہ (بیضاوی) یہ سزا بھی جو کچھ ملی ٹھیک جرم کے مناسب حال ہی ملی۔ وھو الجزاء من جنس العمل (ابن کثیر) اس قسم کے افعال کا حق تعالیٰ کی جانب انتساب، قدیم صحیفوں کا بھی ایک محاورۂ عام ہے۔ ” اسرائیل نے مجھے نہ چاہا تب میں نے انہیں ان کے دلوں کی سرکشی کے بس میں چھوڑ دیا “۔ (زبور 8: 10249 1 1) ” بس خدا نے منہ موڑ کر انہیں چھوڑ دیا کہ آسمانی فوج کو پوجیں “ (اعمال 7:42) ” خدا نے ان کے دلوں کی خواہشوں کے مطابق انہیں ناپاکی میں چھوڑ دیا کہ ان کے بدن آپس میں بےحرمت کیے جائیں “ (رومیون 1:24) 29 ۔ یعنی اپنے مومن ہونے کا جھوٹا دعوی کرتے تھے۔ یہ عذاب الیم جس کا یہاں ذکر ہے منافقون پر مطلق کفر پر نہیں، بلکہ ان کی منافقت پر یا جھوٹے دعوی ایمان پر ہوگا (آیت) ” عذاب الیم “ کافروں کے لیے جس عذاب کی خبر اوپر دی جاچکی ہے (آیت 7 میں) اس کی صفت (آیت) ” عظیم “ آئی ہے، اور یہاں منافقوں کے لیے جس عذاب کی وعید ہے، وہ (آیت) ” الیم “ ہوگا اور (آیت) ” الیم “ کے معنی ہیں مؤلم یعنی دکھ پہنچانے والا۔ گویا تکلیف واذیت کا پہلو اس میں زیادہ نمایاں ہوگا۔ وصف بہ العذاب للمبالغۃ (بیضاوی) خوب سمجھ لیا جائے کہ جو منافق تھے، وہ کافر تو تھے ہی، لیکن کافر کے علاوہ بھی کچھ اور تھے، یعنی خادع وکاذب۔ تو (آیت) ” عذاب عظیم کے مستحق تو وہ اپنے کفر کی بنا پر ہو ہی چکے، یہ منافقت کا (آیت) ” عذاب الیم اس پر مستزاد۔ گویا منافقوں پر دونوں عذابوں کا مجموعہ ہوگا۔ قد حصل للمنافقین مجموع العذابین فصار المنافقون اشد عذابا من غیرھم من الکفار (بحر) بما میں ب سببیہ ہے اور مامصدری۔ الباء للسببیۃ وما مصدریۃ (ابوسعود) منافقوں اور ریاکاروں سے انجیل کا طرز خطاب حسب ذیل ہے :۔ ” تم پر افسوس ہے کہ تم سفیدی پھری قبروں کی مانند ہو، جو اوپر سے تو خوبصورت دکھائی دیتی ہیں مگر اندر مردوں کی ہڈیوں اور ہر طرح کی نجاست سے بھری ہوئی ہیں “۔ (متی۔ 43: 37) اور شیوخ و اکابر یہود کے الفاظ ان کی جیوش انسائیکلوپیڈیا میں یوں منقول ہیں :۔” جو اولیاء کی صحبت میں منافقت کے ساتھ رہتے ہیں، خدا انہیں غارت کرکے رہے۔ جو کوئی منافقت برتے خدا کرے چیل کوے اس کی آنکھیں نکال کر رہیں “۔ (جلد 6 صفحہ 5 14) اور انہیں کے تالمود میں ہے : ” جو کوئی منافقت برتتا ہے وہ غضب (خداوندی) دنیا پر لاتا ہے۔ اس کی جگہ جہنم ہے “ (ایوری مینس تالمود صفحہ 107)
Top