Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 9
یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ۚ وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَؕ
يُخٰدِعُوْنَ : وہ دھوکہ دیتے ہیں اللّٰهَ : اللہ کو وَ : اور الَّذِيْنَ : ان لوگوں کو اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے وَ : اور مَا : نہیں يَخْدَعُوْنَ : وہ دھوکہ دیتے اِلَّآ : مگر اَنْفُسَھُمْ : اپنے نفسوں کو وَ : اور مَا : نہیں يَشْعُرُوْنَ : وہ شعور رکھتے
دھوکا دینا چاہتے ہیں اللہ کو اور ایمان والوں کو24 ۔ حالانکہ (فی الواقع) دھوکا کسی کو بھی نہیں دیتے بجز اپنی ذات کے25 ۔ اور اس کا بھی احساس نہیں رکھتے26 ۔
24 یعنی محض مسلمانوں سے نفع حاصل کرنے کے لیے ان کی گرفت سے اپنے کو بچانے کے لیے اپنے تئیں مسلمان کہہ رہے ہیں۔ اور جرم کفر پر اضافہ جرم خدع کا کررہے ہیں۔ (آیت) ” یخدعون “ باب مفاعلہ سے ہے اور اس کا خاصہ طرفین سے مشارکت ہے، لیکن یہاں (آیت) ” یخدعون “ کے معنی میں ہے۔ اور باب مفاعلہ محض زور اور تاکید کے لیے اختیار کیا گیا ہے۔ المفاعلۃ لا فادۃ المبالغۃ فی الکیفیۃ (ابو سعود) اخرج فی زنۃ فاعلت للمبالغۃ (بیضاوی) (آیت) ” یخدعون اللہ۔ حق کی مخالفت اور تکذیب کرتے کرتے جسارت اتنی بڑھ گئی تھی کہ اپنے خیال وپندار میں خدا کو بھی دھوکا دے چلے تھے۔ اجترء وا علی اللہ حتی ظنوا انہم یخدعون اللہ (ابن جریر، عن ابن عباس ؓ یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ اللہ کو دھوکہ دے رہے ہیں اپنے خیال کے مطابق۔ معناہ یخادعون اللہ فی زعمھم (مدارک) اسی مفہوم کے پیش نظر ترجمہ کیا گیا ہے کہ ” اللہ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں “ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اس دھوکا دینے کی کوشش کو قرآن مجید نے عین اللہ تعالیٰ کو دھوکا دینے سے تعبیر کیا ہو۔ اس کی اور بھی نظیریں قرآن مجید میں ملتی ہیں۔ ذکر نفسہ وارادبہ رسولہ علی عادتہ فی تفخیم امرہ (کبیر) اے رسول اللہ (مدارک) مرشد تھانوی مدظلہ نے فرمایا کہ اہل اللہ کے ساتھ کوئی معاملہ کرنا مثلا عداوت یا فریب کا ایسا ہی ہے جیسے حق تعالیٰ کے ساتھ کرنا۔ 25 یعنی ان کے اس نفاق سے نقصان کسی اور کا نہیں خود انہیں کا ہوتا ہے اور ہوگا۔ آخرت میں عذاب اور دنیا میں رسوائی، فضیحت اور منافقت کی پردہ دری۔ ضررھا یلحقھم ومکرھا یحیق بھم (کشاف) یفتضحون فی الدنیا ویستوجبون العقاب فی العقبی (معالم) 26 (کہ اس منافقت کا وبال خود انہیں پر ہو کر رہے گا) لا یعلمون ان وبال خدا عھم یعود علیھم (معالم) (آیت) ” یشعرون۔ بجائے (آیت) ” یعلمون “ کے یہاں (آیت) ” یشعرون وارد ہوا ہے۔ شعور عربی میں علم حسی کو کہتے ہیں۔ اور اسی کا نام اردو میں احساس ہے۔ اور مشاعر انسان کے آلات حواس کو کہتے ہیں۔ المشاعر الحواس (راغب) الشعور علم الشیء علم حسن من الشعار ومشاعر الانسان حواسہ (کشاف) اس لفظ کے لانے میں نکتہ بلاغت یہ ہے کہ منافقوں کو اس مکرو فریب سے جو نقصان پہنچ رہا ہے اور پہنچے گا وہ بالکل ماذی ہونے کی طرح صاف اور صریح ہے۔ لیکن یہ احمق فرط غفلت سے اس کا بھی احساس نہیں رکھتے۔ والمعنی ان لحوق ضرر ذلک بھم کالمحسوس وھم لنمادی غفلتھم کالذی لا حس لہ (کشاف) اے لا تدرکونہ بالحواس (راغب)
Top