Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 118
وَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ لَوْ لَا یُكَلِّمُنَا اللّٰهُ اَوْ تَاْتِیْنَاۤ اٰیَةٌ١ؕ كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّثْلَ قَوْلِهِمْ١ؕ تَشَابَهَتْ قُلُوْبُهُمْ١ؕ قَدْ بَیَّنَّا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِينَ : جو لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے لَوْلَا : کیوں نہیں يُکَلِّمُنَا : کلام کرتا ہم سے اللّٰہُ : اللہ اَوْ تَأْتِينَا : یا نہیں آتی ہمارے پاس اٰيَةٌ : کوئی نشانی کَذٰلِکَ : اسی طرح قَالَ : کہا الَّذِينَ : جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے مِثْلَ : جیسی قَوْلِهِمْ : بات ان کی تَشَابَهَتْ : ایک جیسے ہوگئے قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل قَدْ بَيَّنَّا : ہم نے واضح کردیں الْآيَاتِ : نشانیاں لِقَوْمٍ : قوم کے لئے يُوْقِنُوْنَ : یقین رکھنے والے
اور جنہیں علم سے بہرہ نہیں،424 ۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ ہم سے کلام کیوں نہیں کرتا ؟425 ۔ یا ہمارے پاس کوئی نشان (عظیم) کیوں نہیں آجاتا ؟426 ۔ اسی طرح وہ لوگ کہہ چکے ہیں جو ان سے پہلے ہوچکے ہیں انہیں کا سا کہنا،427 ۔ ان کے قلوب متشابہ ہوگئے،428 ۔ ہم نے اپنے نشان تو کھول کھول دیے ہیں ان لوگوں کے لیے جو یقین رکھتے ہیں، 429 ۔
424 ۔ یعنی علم حقیقی سے، علوم آسمانی سے۔ مراد مشرکین ہیں۔ وھم کفار العرب (ابن جریر عن قتادۃ والربیع) والمراد جھلۃ المشرکین وقدروی ذلک عن قتادہ والسدی والحسن جماعۃ وعلیہ اکثر المفسرین (روح) 425 ۔ (براہ راست اور بلاواسطہ انبیاء ورسل) کما یتکلم رسلہ وانبیاءہ (ابن جریر) (آیت) ” لولا “ یہاں ھلا کے معنی میں ہے اور ھلا کا اردو میں ترجمہ ” کیوں نہیں “ ہی ہوسکتا ہے اور محاروۂ قرآنی میں لولا عموما اسی معنی میں آتا ہے۔ یعنی ھلا یکلمنا اللہ (ابن جریر) وکل مافی القرآن لولا فھو بمعنی ھلا الا واحدا “ (معالم) اور سیوطی نے بھی اتقان (نوع 40) میں یہ قول خلیل نحوی اور مالک سے نقل کیے ہیں۔ مشرکین کا ایک اعتراض یہ تھا کہ خدا اگر اپنے فلاں فلاں بندہ سے بقول انہیں کے کلام کرسکتا ہے اور کرتا ہے تو آخر ہم سے کیوں نہیں کرتا ہم بھی تو انسان ہی ہیں۔ احمقوں کے نزدیک مکالمہ الہی کے لیے گویا صرف بشریت کافی تھی۔ 426 ۔ (جس سے ہم چاروناچار ان پیغمبر کے دعوی کے تصدیق کر ہی دیں) (آیت) ” ایۃ “ کے لفظی معنی نشان کے ہیں۔ قرآن مجید میں بہ کثرت معجزہ کے معنی میں آیا ہے اور یہاں بھی یہ مراد ہے۔ اور معجزہ سے مرا دوہ واقعہ ہے جو معمول عام سے ہٹا ہوا ہو اور بلااسباب ظاہری اس کا ظہور تائید رسول کے لیے ہو۔ رسول اللہ ﷺ کی صداقت پر معنوی دلائل و شواہد تو کثرت سے موجود تھے لیکن مشرکین کی طرف سے پیہم فرمائشیں یہ جاری رہیں کہ کوئی عظیم الشان، حیرت انگیز، حسی معجزہ دکھایا جائے جس کے بعد گنجائش ہی چون وچرا کی نہ رہے۔ جن لوگوں کی عقلی، روحانی، اخلاقی سطح پست ہے۔ ان کی طرف سے اولیاء ربانی سے فرمائشیں آج بھی اس قسم کی خارق عادت کرامات ہی کے ظہور کی ہوتی رہتی ہیں۔ (آیت) ” آیۃ “ کی تنوین اظہار عظمت کے لیے ہے یعنی کوئی عظیم الشان لرزہ انگیز معجزہ۔ 427 ۔ (اپنے اپنے زمانہ کے پیغمبروں اور داعیان حق سے) یعنی ان کی یہ فرمائشیں کوئی انوکھی اور ان کا یہ مطالبہ کوئی نرالا نہیں۔ جاہلوں نے ہر دور اور ہر ملک میں اس قسم کی فرمائشیں پیش کی ہیں۔ رسالت محمدی ﷺ سے حضرات انبیاء میں قریب ترین زمانہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا گزرا ہے آپ عرب میں نہیں شام میں تھے۔ آپ سے بھی تعلیمات اور اصل پیام کو چھوڑ کر تقاضے انہیں آسمانی نشانیوں کے ہوتے رہتے تھے۔ ” فریسیوں اور صدوقیوں کے پاس آکر آزمانے کے لیے اس سے درخواست کی کہ ہمیں کوئی آسمانی نشان دکھا۔ “ (متی 16: 1) یہاں تک کہ خود حق تعالیٰ کو لا دکھانے کی فرمائش شروع ہوگئی تھیں، ” فلپس نے اس سے کہا کہ اے خداوند ہمیں باپ کو دکھاپس ہمیں کافی ہے “۔ (یوحنا 14:8) 428 ۔ یعنی اگلوں اور پچھلوں کے قلب بالکل ایک سے ہیں بےبصیرتی اور ناحق شناسی میں۔ انجیل میں غضبانی کی کے لیجہ میں :۔” اس زمانہ کے برے اور زناکار لوگ نشان طلب کرتے ہیں مگر یونس کے نشان کے سوا کوئی اور نشان ان کو نہ دیا جائے گا۔ “ (متی 16:4) ” اے گردن کشو اور دل اور کان کے نامختونو، تم ہر وقت روح القدس کی مخالفت کرتے ہو جیسے تمہارے باپ دادا کرتے تھے۔ ویسے ہی تم بھی کرتے ہو، نبیوں میں کس کو تم نے نہیں ستایا ؟ “ (اعمال، 7:5 1، 52) 429 ۔ مطالبہ ایک نشان (آیت) بہ صیغہ واحد) کا تھا جواب میں یہ ملا کہ یہاں تو نشان پر نشان (الآیات بہ صیغہ جمع) پیش کیے جاچکے ہیں۔ تاریخ اور سیرت میں جن معجزوں کا ذکر آتا ہے ان سے قطع نظر دو معجزے تو بالکل بین ونمایاں تھے۔ 1 ۔ رسول اللہ ﷺ کا سچائی، امانت، پاکبازی، عقل وفہم کے لحاظ سے بےنظیر ہونا، آپ کی سیرت مبارک کے ایک ایک جزکا بجائے خود معجز ہونا۔ 2 ۔ قرآن مجید کا لفظی، معنوی، ظاہری، باطنی، تعلیمی وادبی اعتبار سے بےمثل ہونا، (آیت) ” بینا “ یعنی یہ نشانات کچھ ان سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ ہم نے انہیں بالکل واضح وآشکار کر رکھا ہے۔ ان میں کسی طرح کا خفا نہیں۔ (آیت) ” قد بینا “ قد کی تاکید نے (آیت) ” بینا “ کی صراحت کو اور زیادہ زور دار بنادیا۔ اور اسی کے اظہار کے لیے اردو ترجمہ میں ” کھول کھول “ لایا گیا ہے۔ (آیت) ” لقوم یوقنون “ یعنی یہ کھلے ہوئے نشان بھی نظر انہیں لوگوں کو آتے ہیں جن کے قلب جہل وعناد کی گندگی اور شک وارتیاب کی آلودگیوں سے پاک ہیں۔ شواہد و دلائل مادی قسم کے ہوں یا معنوی، بہرحال ان سے نفع حاصل کرنے لیے دیدہ بصیرت وچشم بینا ضروری ہے۔ آنکھ رکھنے والے کے لیے پیغمبر کی کتاب زندگی کی ایک ایک سطر معجزہ ہے۔ عارف رومی نے اسی حقیقت کی ترجمانی کی ہے۔ دردل ہر کس کہ از دانش مزاست روئے وآواز پیغمبر معجزہ است امامن کان فی ارتیاب اوشک اوتغافل اوجھل فلا ینفع فیہ الایت ولوکانت فی غایۃ الوضوح (بحر) یقین شک کی ضد ہے اور علم وتحقیق کے مرادف ہے۔ الیقین ازاحۃ الشک والعلم وتحقیق الامر ونقیضہ الشک (تاج) (آیت) ” لقوم یوقنون “ کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ یہ ان لوگوں کے لیے ہیں جو یقین کی طلب اور پیاس اپنے اندر رکھتے ہیں اے طالبون معرفۃ حقایق الاشیاء علی یقین وصحۃ (ابن جریر) اے یطلبون الیقین (بیضاوی)
Top