Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 123
وَ اتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا وَّ لَا یُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّ لَا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَّ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ
وَاتَّقُوْا : اور ڈرو يَوْمًا : وہ دن لَا تَجْزِي : بدلہ نہ ہوگا نَفْسٌ : کوئی شخص عَنْ نَفْسٍ : کسی شخص سے شَيْئًا : کچھ وَلَا يُقْبَلُ : اور نہ قبول کیا جائے گا مِنْهَا : اس سے عَدْلٌ : کوئی معاوضہ وَلَا تَنْفَعُهَا : اور نہ اسے نفع دے گی شَفَاعَةٌ : کوئی سفارش وَلَا هُمْ يُنْصَرُوْنَ : اور نہ ان مدد کی جائے گی
اور اس روز سے ڈرو جب نہ کوئی کسی کے بھی کام آئے گا اور نہ اس کے طرف سے معاوضہ قبول کیا جائے گا اور نہ اسے سفارش نفع پہنچا سکے گی اور نہ انہیں مد ہی پہنچ سکے گی،442 ۔
442 ۔ (کسی طرف سے بھی۔ اور نہ ان کی فریاد رسی کسی سے بھی ہوسکے گی) یہ آیت بھی رکوع 6 میں گزر چکی اور وہیں اس پر متعدد حاشیے دیئے جاچکے ہیں۔ بنی اسرائیل نے اس وقت ایک تو عقیدہ قیامت کو بالکل بھلا دیا تھا اور جزاوسزا کی ساری صورتیں اسی دنیا میں محدود سمجھ لی تھیں۔ چناچہ موجودہ توریت میں بھی جہاں جہاں سعادت وشقاوت کے ثمرات مذکور ہیں، اسی دنیا کی خوشحالی و بدحالی کا بیان ہے۔ اس لیے پہلے تو انہیں یوم آخرت کی یاد دلائی گئی۔ اور پھر ان کی گمراہی کے ایک ایک مرکزی عقیدہ، شفاعت، کفارہ وفدیہ پر ضرب لگائی گئی۔ آیت کے الفاظ اتنے جامع ہیں کہ یہودیت کے ساتھ نصرانیت کی بھی جڑکٹی جاتی ہے۔ نصرانیت کی بنیاد ہی شفاعت، کفارہ وفدیہ ہی کے عقائد باطلہ پر ہے۔
Top