Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 129
رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْ١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۠   ۧ
رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَابْعَثْ : اور بھیج فِيهِمْ : ان میں رَسُوْلًا : ایک رسول مِنْهُمْ : ان میں سے يَتْلُوْ : وہ پڑھے عَلَيْهِمْ : ان پر آيَاتِکَ : تیری آیتیں وَ : اور يُعَلِّمُهُمُ : انہیں تعلیم دے الْكِتَابَ : کتاب وَ : اور الْحِكْمَةَ : حکمت وَيُزَكِّيهِمْ : اور انہیں پاک کرے اِنَکَ اَنْتَ : بیشک تو الْعَزِيزُ : غالب الْحَكِيمُ : حکمت والا
اے ہمارے پروردگار ان میں ایک پیغمبر انہیں میں سے بھیج،466 ۔ (جو) انہیں تیری آیتیں پڑھ کر سنائے اور انہیں، کتاب (الہی) اور دانائی کی تعلیم دے اور انہیں پاک (وصاف) کرے،467 ۔ یقیناً تو تو بڑا زبردست ہے، بڑا حکمت والا ہے،468 ۔
466 ۔ (آیت) ” منہم “ یہ قید خوب خیال میں رہے۔ دعائے ابراہیمی ابھی چل رہی ہے۔ ابھی ابھی آپ اور حضرت اسمعیل (علیہما السلام) دونون ملکر عرض کرچکے ہیں۔ کہ اے پروردگار ہم دونوں کی نسل میں سے ایک امت مسلمہ ایک اپنی فرمانبردار امت پیدا کر۔ اور اس کے معا بعد (آیت) ” منہم “ کا لفظ لاتے ہیں۔ کھلی ہوئی مراد نسل اسمعیلی سے ہے۔ لفظ ھم کا مرجع ذریۃ کو بھی سمجھا گیا ہے اور امت مسلمہ کو بھی۔ والضمیر فی منہم یحتمل ان یعود علی الذریۃ ویحتمل ان یعود علی امت مسلمۃ (بحر) ماحصل دونوں کا ایک ہی ہے یعنی نسل اسمعیلی۔ اور یہ جزوتاریخ سے اپنی جگہ ثابت ہے کہ صحیح النسب نسل اسمعیل (علیہ السلام) قوم عرب ہی رہ گئی تھی، اس لیے لازمی تھا کہ یہ پیغمبر عرب ہی میں پیدا ہو۔ (آیت) ” رسولا “ اس کا ایک تو صیغہ واحد اور پھر اعراب کی تنوین۔ گوپایہ اشارہ قریب بہ صراحت پہنچ گیا کہ وہ رسول ایک ہی ہوگا۔ متعدد نہ ہوں گے۔ یہود کا دعوی ہے۔ اور (نصاری بھی انہیں کا ساتھ دیتے رہے ہیں) کہ نبوت و رسالت تو بنی اسرائیل کے ساتھ مخصوص تھی۔ یہ نیا پیغمبر بنی اسمعیل میں کیسے پیدا ہوگیا ؟ لیکن انہیں کی توریت باوجود ان کی ساری تحریفات کے اس تک شہادت کچھ اور ہی دے رہی ہے ایک جگہ حضرت موسیٰ اپنی قوم کو مخاطب کرکے کہتے ہیں :۔ ” خداوند تیرا خدا تیرے لیے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا تم اس کی طرف کان دھرو “۔ (استثنا۔ 18: 15) قطع نظر اس سے کہ بنی اسرائیل میں تو ایک نبی نہیں خدا معلوم کتنے انبیاء حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد پیدا ہوتے رہے۔ خود ” تیرے ہی بھائیوں میں سے “ کی تصریح بتا رہی ہے کہ مراد بنی اسرائیل نہیں۔ بلکہ ان کے ہم جد بھائی بنی اسمعیل ہیں۔ اگر خبر اسرائیلی ہی نبی کی دینا ہوتی تو بجائے ” تیرے ہی بھائیوں میں سے “ کے عبارت ” تجھ ہی میں سے “ ہوتی۔ یہ الفاظ تو صرف مخاطبین کی وحشت دور کرنے اور ان میں جذبہ انس وموانست پیدا کرنے کے لیے ہیں کہ اے ہم قوموجب وہ نبی آئے تو اس کی اطاعت کرنا۔ وہ بھی تمہارا کوئی غیر نہیں تمہارے ہی بھائیوں میں سے ہوگا۔ اور پھر دو ہی آیتوں کے بعد توریت میں بعینہ یہی مضمون براہ راست حق تعالیٰ کی جانب سے ادا کیا گیا ہے :۔ ” خداوند نے مجھے کہا کہ انہوں نے جو کچھ کہا سو اچھا کہا۔ میں ان کے لیے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا “۔ (استثناء 18: 18) اس سے قطع نظر اگر ممکن ہو تو کرلیجئے کہ ” اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا “ یعنی لفظی کلام الہی ہونے کا مصداق بجز قرآن کے ساری آسمانی کتابوں میں اور ہے ہی کون ؟ لفظی کلام الہی ہونے کا دعوی کس دوسری کتاب کا ہے ؟ اور اس سے بھی قطع نظر اگر ممکن ہو تو کرلیجئے کہ ” تجھ سا “ یعنی ” موسیٰ کا سا “ مثیل موسیٰ ہونے کا مصداق تاریخ کی دنیا میں بجز ذات محمد ﷺ کے اور ہوا کون ہے ؟ اور کیا اس سے بھی قطع نظر ممکن ہوگی کہ یہاں بھی بجائے ” ان میں سے “ کے یا ” اسرائیلیوں میں سے “ کے ” ان کے بھائیوں میں سے “ ہونے کی صراحت یہاں بھی موجود ہے اور پھر یہی پیشگوئی انہیں لفظوں میں موسیٰ نبی کی زبان سے نکلی ہوئی، نصاری کی انجیل میں بھی دہرائی ہوئی موجود ہے :۔ ” موسیٰ نے کہا کہ خداوند خدا تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لیے مجھ سا نبی پیدا کرے گا۔ جو کچھ وہ تم سے کہے تم اس کی سننا “۔ (اعمال 3:22) 467 ۔ ذرا غور کرنے سے نظر آجائے گا کہ رسول اعظم ﷺ کے جملہ فرائض کمال ایجاز کے ساتھ ان چند فقروں میں آگئے ہیں۔ (آیت) ” یتلوا علیھم ایتک “ رسول کا پہلا کام اپنی امت کے سامنے تلاوت آیات ہوتا ہے۔ یعنی اللہ کا کلام پہنچانا۔ گویا رسول کی پہلی حیثیت مبلغ اعظم کی ہوتی ہے۔ (آیت) ” یعلمھم الکتب “ رسول کا کام محض تبلیغ وپیام رسانی پر ختم نہیں ہوجاتا، اس کا کام کتاب الہی کی تبلیغ کے بعد اس کی تعلیم کا بھی ہے۔ اس تعلیم کے اندر کتاب کی شرح، ترجمانی، تعمیم میں تخصیص، تخصیص میں تعمیم سب کچھ آگئی۔ اور یہیں سے ان کج فہموں کی بھی تردید ہوگئی جو رسول کا منصب (معاذ اللہ) صرف ڈاکیہ یا قاصد کا سمجھے ہوئے ہیں ! گویا رسول کی دوسری حیثیت معلم اعظم کی ہوئی (آیت) ” والحکمۃ “ پھر رسول تعلیم محض کتاب ہی کی نہ دیں گے بلکہ حکمت و دانائی کی تلقین بھی امت کو کریں گے۔ احکام ومسائل، دین کے قاعدے اور آداب، عوام و خواص سب کو سکھائیں گے اور خواص کی رہنمائی اسرار و رموز بھی کریں گے، گویا رسول کی تیسری حیثیت مرشد اعظم کی ہوئی۔ (آیت) ” یزکیھم۔ تزکیہ سے مراد دلوں کی صفائی ہے۔ رسول کا کام محض الفاظ اور احکام ظاہر کی تشریح تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ وہ اخلاق کی پاکیزگی اور نیتوں کے اخلاص کے بھی فرائض انجام دیں گے، رسول کی یہ چوتھی حیثیت مصلح اعظم کی ہوئی۔ 468 (آیت) ” انک انت “ عربی کے اس دہرے فقرۂ مخاطبت کا مفہوم اردو میں ” یقیناً تو تو “ (پہلا ” تو “ واؤ معروف اور دوسرا ” تو “ واؤمجہول کے ساتھ) سے ادا ہوتا ہے۔ (آیت) ” العزیز “ ہر دعا کے قبول کرنے پر۔ ہر آرزو کے پورا کرنے پر قادر۔ اس کی مشیت پر مانع اور غالب کوئی چیز نہیں آسکتی (آیت) ” الحکیم “۔ قادر مطلق ہونے ساتھ حکیم مطلق بھی۔ قبول وہی دعائیں کرتا ہے بندوں کی آرزوئیں وہی پوری کرتا ہے، جو قانون حکمت کے مطابق وماتحت ہوتی ہیں۔ اللہ اکبر ! خلیل وذبیح (علیہما السلام) کی ادب شناسیوں کا کیا کہنا ! دعا میں بھی کیسے کیسے نکتے ملحوظ رکھ لیے ہیں۔ حضرات انبیاء سے بڑھ کر ادب شناس اور ہو بھی کون سکتا ہے ؟
Top