Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 135
وَ قَالُوْا كُوْنُوْا هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى تَهْتَدُوْا١ؕ قُلْ بَلْ مِلَّةَ اِبْرٰهٖمَ حَنِیْفًا١ؕ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ
وَ : اور قَالُوْا : انہوں نے کہا كُوْنُوْا : تم ہوجاؤ هُوْدًا۔ اَوْ : یہودی۔ یا نَصَارٰی : نصرانی تَهْتَدُوْا : ہدایت پالوگے قُلْ : کہہ دو بَلْ : بلکہ مِلَّةَ : دین اِبْرَاهِيْمَ : ابراہیم حَنِيْفًا : ایک وَمَا : اور نہیں کَانَ : تھے مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین
اور یہ (لوگ) کہتے ہیں کہ یہودی ہوجاؤ یا نصرانی ہوجاؤ تو راہ یاب ہوجاؤگے،484 ۔ آپ کہہ،485 ۔ دیجے کہ نہیں بلکہ (ہم نے تو) ابراہیم (علیہ السلام) سیدھی راہ والے کا مذہب پالیا،486 ۔ اور وہ مشرکین میں سے نہ تھے،487 ۔
484 ۔ قرآن مجید کی صاف اور سیدھی تعلیمات اور اس کے واضح دلائل کو سن کر چاہیے تو یہ تھا کہ اہل کتاب ان سے متاثر ہوتے، اور قبول حق پر آمادہ ہوتے، لیکن بجائے اس کے ضد اور ہٹ سے کام لے کر الٹی مسلمانوں کو یہودیت اور نصرانیت کی دعوت دیتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمارا دین قبول کرلو، تو تمہیں دنیا کی فلاح اور آخرت میں نجات حاصل ہوجائے۔ ،485 ۔ (ساری امت اسلامیہ کی طرف سے ان لوگوں کے جواب میں، اے ہمارے پیغمبر)486 ۔ (اس کی اصلی اور غیر محرف شکل میں) (آیت) ” ملۃ ابراہیم۔ یہود اور نصاری دونوں، نومسلموں اور نیم مسلموں کو اپنی اپنی طرف کھینچتے تھے کہ ” فلاح ونجات منظور ہو تو ہمارے مذہب میں آؤ، اس نئے مذہب میں کیا رکھا ہے۔ “ ؟ مسلمانوں کو تعلیم اس جواب کی مل رہی ہے، کہ ” تمہارے ہاں کیا رکھا ہے بجز تحریفات کے ؟ رہا ہمارا دین تو وہ نوپیدا ذرا بھی نہیں۔ وہ تو بس قدیم دین توحید ابراہیم (علیہ السلام) کا ہے اور ہم اسی کی اصلی اور غیر محرف شکل پر قائم ہیں۔ (آیت) ” حنیفا “ ترکیب میں حال واقع ہوا ہے مضاف الیہ ابراہیم کا۔ اکثر اکابر تفسیر اسی طرح گئے ہیں۔ حال من المضاف الیہ (کشاف) ھو حال من المضاف الیہ (ابوسعود) دوسرا قول یہ ہے کہ (آیت) ” حنیفا “ صفت (آیت) ” ابرھم “ کی نہیں بلکہ ملۃ کی ہے۔ اور حال مضاف الیہ کا نہیں، بلکہ مضاف کا واقع ہوا ہے۔ وھو حال من المضاف بتاویل الدین او تشبیھا لہ بفعیل بمعنی مفعول (روح) اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا ” ہم نے پالیا ہے مذہب ابراہیم (علیہ السلام) کا جو سیدھی راہ ہے “۔ (آیت) ” حنیفا “ کے معنی بہرصورت مستقیما ومائلا الی الحق کے ہیں، اس جملہ کی تقدیریوں ہے۔ بل تکون علی ملۃ (علیہ السلام) یا بل نتبع ملتہ (علیہ السلام) ۔ 487 ۔ یہ تعریض ہے اہل کتاب پر کہ تم کس منہ سے اپنے کو دین ابراہیم (علیہ السلام) کی جانب منسوب کرتے ہو، وہ تو شرک کے قریب ہوکر بھی نہیں گزرے تھے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی توحید خالص پر یہود، نصاری، سب ہی متفق تھے، گوعملا ان کی روش چھوڑے ہوئے تھے، بلکہ مسیحی تو صریح شرک میں مبتلا ہوچکے تھے ،
Top