Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 134
تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ١ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ لَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ١ۚ وَ لَا تُسْئَلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
تِلْکَ أُمَّةٌ : یہ امت قَدْ : تحقیق خَلَتْ : جو گزر گئی لَهَا : اس کے لئے مَا کَسَبَتْ : جو اس نے کمایا وَ : اور لَكُمْ : تمہارے لئے مَا کَسَبْتُمْ : جو تم نے کمایا وَ : اور لَا : نہ تُسْئَلُوْنَ : تم سے پوچھا جائے گا عَمَّاکَانُوْا : اس کے بارے میں جو وہ يَعْمَلُوْنَ : کرتے تھے
یہ ایک جماعت ہے جو گزر چکی،482 ۔ ان کے آگے ان کا کیا ہوا آئے گا، اور تمہارے آگے تمہارا کیا ہوا اور وہ جو کچھ کرتے رہے اس کی پوچھ گچھ تم سے نہ ہوگی،483 ۔
482 ۔ (اور ان کے فضائل و کمالات بھی ان کے ساتھ گزر چکے۔ تمہیں آخر ان کے نام گنانے سے کیا حاصل ؟ ) (آیت) ” تلک امۃ “ سے مراد یہی اجداد یہود ہیں۔ جن کا شمار جماعت انبیاء میں ہے۔ خطاب یہاں یہود سے ہے جو آبائی مفاخرت، نسلی عظمت، پیغمبر زادگی کے نشہ میں چور تھے۔ اس میں بڑا سبق آج کل کے پیرزادوں، رسمی مشائخ زادوں، اور بہت سے بدعتی فرقوں کے لیے موجود ہے۔ بلاسعی عمل محض بزرگوں کی نسبت سے فائدہ اٹھانے کی جڑ ہی اسلام نے کاٹ دی ہے۔ 483 ۔ اسلام کے طفیل اب یہ بات معمولی سی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن قرآن نے جب اس حقیقت کا اعلان کیا ہے اس وقت بہت ہی اہم اور گویا ایک نادر سی بات تھی۔ شخصی وذاتی ذمہ داری اور انفرادی مسؤلیت کی تعلیم اسلام کے خصوصیات امتیازی میں سے ہے۔ ورنہ مشرک تو تو مشرک، یہود اہل توحید تک اس سفاہت میں مبتلا ہوگئے تھے کہ ذاتی عمل کی ضرورت ہی کیا ہے۔ مقبولان الہی کی جانب انتساب نسلی اور بزرگوں کی طرف نسبت نسبی بالکل کافی ہے۔ مسیحیوں کا گڑھا ہوا مسئلہ ” معصیت متوارث “ سب کو معلوم ہے۔ یعنی جو معصیت ابوالبشر سے سرزد ہوگئی تھی، وہ ہر نسل آدم میں منتقل ہوتی چلی آرہی ہے۔ یہود نے اس کے مقابل ایک عقیدہ ” نجات متوارث “ کا وضع کرلیا تھا۔ اور یہ سمجھ لیا تھا کہ ” خدائے تعالیٰ اپنے اسم پاک کے طفیل میں اور بہ طور اپنے افضال کے، باپ کے حسنات اولاد کی طرف منتقل کرتا رہتا ہے “ ‘ (جیوش انسائیکلوپیڈیا۔ جلد 12 صفحہ 447) توریت مروجہ میں ایک آیت اس مضمون کی ملتی ہے :۔ ” میں خدا وند تیرا خدا غیور خدا ہوں۔ جو باپ دادوں کی بدکاری کا بدلہ ان کی اولاد سے تیسری اور چوتھی پشت تک جو میرا کینہ رکھنے والے ہیں۔ لیتا ہوں “۔ (استثناء۔ 5:9) پاس اس تنکے کی اوٹ پہاڑ یہ کھڑا کرلیا گیا کہ ہر نسل کو انتقال ثواب اوپر سے بھی اور نیچے کوئی ڈر ہی نہیں :۔ ” بعض کو ثواب اپنے اسلاف کے اعمال کا ملے گا، اور بعض کو ثواب اپنے اخلاف کے اعمال کا “۔ (جیوش انسائیکلوپیڈیا، جلد 6 صفحہ 60) ” افراد یہود کی امیدیں سب اسلاف کے تقدس پر قائم ہوگئی تھیں (یعنی اس پر کہ) ہم ابراہیم کی اولاد ہیں “۔ (انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا جلد 13 صفحہ 184 طبع یازدہم)
Top