Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 145
وَ لَئِنْ اَتَیْتَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ بِكُلِّ اٰیَةٍ مَّا تَبِعُوْا قِبْلَتَكَ١ۚ وَ مَاۤ اَنْتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ١ۚ وَ مَا بَعْضُهُمْ بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ١ؕ وَ لَئِنِ اتَّبَعْتَ اَهْوَآءَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ١ۙ اِنَّكَ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَۘ
وَلَئِنْ : اور اگر أَتَيْتَ : آپ لائیں الَّذِيْنَ : جنہیں أُوْتُوا الْكِتَابَ : دی گئی کتاب (اہل کتاب) بِكُلِّ : تمام اٰيَةٍ : نشانیاں مَّا تَبِعُوْا : وہ پیروی نہ کرینگے قِبْلَتَکَ : آپ کا قبلہ وَمَا : اور نہ أَنْتَ : آپ بِتَابِعٍ : پیروی کرنے والے قِبْلَتَهُمْ : ان کا قبلہ وَمَا : اور نہیں بَعْضُهُمْ : ان سے کوئی بِتَابِعٍ : پیروی کرنے والا قِبْلَةَ : قبلہ بَعْضٍ : کسی وَلَئِنِ : اور اگر اتَّبَعْتَ : آپ نے پیروی کی أَهْوَآءَهُمْ : ان کی خواہشات مِنْ بَعْدِ : اس کے بعد مَا جَآءَکَ : کہ آچکا آپ کے پاس مِنَ الْعِلْمِ : علم إِنَّکَ : بیشک آپ إِذًا : اب لَّمِنَ : سے الظَّالِمِيْنَ : بےانصاف
اور اگر آپ ان لوگوں کے سامنے جنہیں کتاب مل چکی ہے ساری ہی نشانیاں لے آئیں،531 ۔ (جب بھی) یہ آپ کے قبلہ کی پیروی نہ کریں گے،532 ۔ اور نہ آپ ان کے قبلہ کی پیروی کرنے والے ہیں،533 اور نہ وہ (آپس میں) ایک دوسرے کے قبلہ کو ماننے والے ہیں،534 ۔ اور اگر (کہیں) آپ ان کی خواہشوں کی پیروی کرنے لگیں،535 ۔ بعد اس کے کہ آپ کے پاس علم آچکا ہے،536 ۔ تو یقیناً آپ (بھی) ظالموں میں (شمار) ہوں گے،537 ۔
531 ۔ یعنی اپنی پیغمبری کے سارے ممکن دلائل ومعجزات بھی۔ (آیت) ” الذین اوتوالکتب “ سے مراد یہود ہیں۔ 532 ۔ (یہ حد ہے ان کے ضد، عناد وتعصب کی، اس لیے آپ ﷺ کا ان کے اعتراضات کی طرف اعتناء کرنا ہی بےکار ہے) 533 ۔ اس لیے کہ اسرائیل کی امامت کے خاتمہ پر آپ ﷺ کو ایک مستقل، امتیازی، عالمگیر قبلہ عطا ہوچکا ہے، اور یہود ونصاری کو آپ ﷺ کی طرف سے اب ہمیشہ کے لیے مایوس ہوجانا چاہیے) 534 ۔ چناچہ یہود کا قبلہ آج تک ہیکل بیت المقدس ہے۔ اور نصاری کسی عمارت یا مکان کو نہیں، بلکہ سمت مشرق کو قبلہ بنائے ہوئے ہیں اور عجب نہیں کہ اندرونی اختلافات اس سے بھی زائد ہوں۔ بحمد اللہ کہ ہمارے قدیم مفسرین بھی یہود ونصاری کے قبلوں کے فرق سے صحیح طور پر واقف تھے۔ چناچہ لکھتے ہیں :۔ فالیھود مستقبل بیت المقدس والنصاری مطلع الشمس (مدارک) اور خیر نسفی تو بعد کے شخص ہیں۔ ابن جریر تو متقدمین میں ہیں، وہ تک اس سے باخبر تھے، وذلک ان الیھود تستقبل بیت المقدس بصلا تھا ومن النصاری تستقبل المشرق (ابن جریر) 535 ۔ تحویل قبلہ کے باب میں، حالانکہ عصمت نبوت خود ہی اس مفروضہ کے منافی ہے) اہل کتاب کی اتباع واسترضاء تو مطلقا ممنوع ہے، لیکن قبلہ جیسے بنیادی دینی مسئلہ میں ان کی اتباع معصیت ہی نہیں، کفر ہے۔ 536 ۔ یعنی علم ثابت بالوحی، قرآنی اصطلاح میں (آیت) ” العلم “ سے مراد یہی علم حقیقی ہوتا ہے، دنیوی ” علوم “ کی کوئی صنف نہیں۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ آیت میں تہدید ہے ان لوگوں کے لیے جو علم صحیح کے باوجود بجائے اس کے اپنی خواہش کی پیروی کرتے ہیں۔ وفی ذلک تحذیر لمن یترک الدلیل بعد انارۃ ویتبع الھوی (مدارک) 537 ۔ اللہ کے قانون میں رد رعایت کی گنجائش کسی کے لیے نہیں، یہاں تک کہ انبیاء کے لیے بھی نہیں۔ اور نفس فطرت بشری کے لحاظ سے گناہوں کی صلاحیت ان میں بھی ویسی ہی ہوتی ہے، جیسی دوسرے انسانوں میں۔ یہ اور بات ہے کہ توفیق الہی ان کا تعلق ہر وقت اور ہر حال میں اپنے سے قائم رکھتی ہے، اور انہیں خطا سے محفوظ اور معصیت سے معصوم بنائے رکھتی ہے۔ امام رازی (رح) نے آیت سے یہ نکتہ بھی پیدا کیا ہے کہ عالم کے حق میں وعید شدید تر ہے غیر عالم کے مقابلہ میں۔ دلت الایۃ علی انہ توجہ الوعید علی العلماء اشد من توجہ علی غیرھم (کبیر)
Top