Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 19
اَوْ كَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیْهِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ بَرْقٌ١ۚ یَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ١ؕ وَ اللّٰهُ مُحِیْطٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ
أَوْ کَصَيِّبٍ : یا جیسے بارش ہو مِنَ السَّمَاءِ : آسمان سے فِيهِ : اس میں ظُلُمَاتٌ : اندھیرے ہوں وَرَعْدٌ : اور گرج وَبَرْقٌ : اور بجلی يَجْعَلُونَ : وہ ٹھونس لیتے ہیں أَصَابِعَهُمْ : اپنی انگلیاں فِي آذَانِهِمْ : اپنے کانوں میں مِنَ الصَّوَاعِقِ : کڑک کے سبب حَذَرَ الْمَوْتِ : موت کے ڈر سے وَاللَّهُ : اور اللہ مُحِيطٌ : گھیرے ہوئے ہے بِالْکَافِرِينَ : کافروں کو
یا پھر جیسے آسمان سے زور کا مینہ برس رہا ہو،52 ۔ اس میں اندھیرے ہیں اور گرج اور بجلی53 ۔ وہ ٹھونسے ہوئے ہیں اپنے کانوں میں انگلیاں، کڑک کے سب ب موت کے اندیشہ سے54 ۔ حالانکہ اللہ گھیرے ہوئے ہے کافروں کو55 ۔
52 ۔ منافقین مدینہ کے بھی دو طبقے تھے۔ ایک تو وہ تھے جن کے دلوں میں سرتا پا کفر تھا۔ ایمان کا گزر ہی نہ تھا۔ اس طبقہ کے منافقین کی مثال ابھی اوپر گزر چکی ہے۔ (آیت) ” ذھب اللہ بنورھم وترکھم فی ظلمت لا یبصرون “ دوسرا طبقہ ان منافقین کا تھا جو یکسر منکر نہ تھے بلکہ آج کل کے بعض انتہائی روشن خیالوں کی طرح متشککین ومذبذبین میں تھے۔ اسلام کی ظاہری قوت و شوکت اور مادی اقتداروفتح مندی کو دیکھ کر کبھی چند قدم اس کی طرف بڑھتے۔ اور جب مسلسل یہ کامیابی نہ پاتے، تو پھر پیچھے ہٹ جاتے۔ آیت میں مثال اس طبقہ کے منافقین کی بیان ہورہی ہے۔ ھذا مثل اخر ضربہ اللہ تعالیٰ لضرب اخر من المنفقین وھم وقوم یظھر لھم الحق تارۃ ویشکون تارۃ اخری (ابن کثیر) ھذا ھو المثل الثانی للمنافقین (کبیر) صیب اس باران رحمت سے اشارہ ہے طلوع اسلام کی جانب۔ المراد من الصیب ھو الایمان والقرآن (کبیر) (آیت) ” السمآء “ یہاں کثرت سے اس کے معنی بادل یا سحاب کے نقل ہوئے ہیں۔ اے من السحاب (معالم) قیل المراد بالسماء السحاب (بیضاوی) سماء کے خود لفظی معنی میں بھی اس مفہوم کی پوری گنجائش موجود ہے کہ ہر چیز جو انسان سے اوپر کی طرف ہو لغت میں سماء ہی ہے۔ السماء کل ما علاک فاظلک (قرطبی) او کو بعض نے یہاں بل کے معنی میں لیا ہے اور بعض نے و کے معنی میں (کبیر) 53 ۔ اشارہ ہے ان شداید کی طرف جو آغاز اسلام میں امت کو برداشت کرنے پڑتے تھے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ شرعی پابندیاں مراد ہوں جو اظہار اسلام کے بعد بہرحال منافقین پر بھی عائد ہوجاتی تھیں۔ مثلا ادائے نماز، فریضہ جہاد، ترک امارت قدیم، اطاعت رسول وغیرہا (کبیر) (آیت) ” فیہ “ میں ضمیر کا مرجع صیب بھی ہوسکتا ہے اور (آیت) ” السمآء) بھی۔ (آیت) ” ظلمت “ کا تعلق فی صیب سے بھی ہوسکتا ہے اور فی السمآء سے بھی، ماحصل دونوں صورتوں کا ایک ہی ہے۔ 54 ۔ یہ کانوں میں انگلیاں ٹھونسنے والے وہی اندھیروں میں راہ چلنے والے ہیں، یعنی منافقین ومذبذبین۔ مطلب یہ کہ منافقین اپنی بزدلی، پست ہمتی، دون فطرتی کی بنا پر اسلام بنا پر اسلام لانے میں ہر وقت خطرے ہی دیکھ رہے ہیں، ایک معنی یہ بھی نقل ہوئے ہیں کہ منافقین قرآن مجید کے بیانات اور احکام ومواعید کی تصریحات سننے ہی سے بچنا چاہتے تھے اور کانوں میں انگلیاں دے لیتے تھے اس ڈر سے کہ کہیں یہ کلام اثر نہ کرجائے اور انہیں اسلام لاتے ہی نہ بن پڑے۔ (آیت) ” من الصواعق “ اے من بیان القرآن ووعدہ ووعیدہ (ابن عباس ؓ (آیت) ” حذر الموت “ اے مخافۃ میل القلب الیہ (ابن عباس ؓ 55 ۔ (اپنے علم سے، قدرت سے، ہر لحاظ) سو کافر اس کی گرفت سے بچ کر جاکہاں سکتے ہیں اور اس کے سامنے ان کی ساری تدبیریں اور حیلے بےاثر رہیں گے، جیسے محیط سے وہ چیز سے وہ چیز نہیں بچ سکتی جو اس کے احاطہ میں ہو۔ اے عالم بھم وجامعھم فی النار (ابن عباس ؓ مرشد تھانوی مدظلہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر محض علم ہی کے لحاظ سے محیط نہیں بلکہ ذاتا بھی محیط ہے، بلاکسی کیفیت کے، اور عارف رومی نے کہا ہے۔ اتصالے بےتکیف بےقیاس +ہست رب الناس رابا جان ناس۔
Top