Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 210
هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیَهُمُ اللّٰهُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ وَ قُضِیَ الْاَمْرُ١ؕ وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۠   ۧ
ھَلْ : کیا يَنْظُرُوْنَ : وہ انتظار کرتے ہیں اِلَّآ : سوائے (یہی) اَنْ : کہ يَّاْتِيَهُمُ : آئے ان کے پاس اللّٰهُ : اللہ فِيْ ظُلَلٍ : سائبانوں میں مِّنَ : سے الْغَمَامِ : بادل وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے وَقُضِيَ : اور طے ہوجائے الْاَمْرُ : قصہ وَاِلَى : اور طرف اللّٰهِ : اللہ تُرْجَعُ : لوٹیں گے الْاُمُوْرُ : تمام کام
(یہ لوگ) تو بس اسی کا انتظار کررہے ہیں کہ ان کے پاس خدا بادل کے سائبانوں میں آجائے اور فرشتے (بھی) ،764 ۔ اور قصہ ہی ختم ہوجائے، اور اللہ ہی کی طرف (سارے) معاملات رجوع کئے جائیں گے،765
764 (جن کا کام ہی تعمیل ارشاد کرنا ہوتا ہے) اب پھر اشارہ انہی نو مسلم یہود کی طرف ہے، جن کا ذکر دو آیت قبل آچکا ہے۔ یہ اسلام میں ابھی داخل ہوئے ہیں، لیکن کفر ویہودیت سے پوری طرح نہیں نکل پائے ہیں۔ (آیت) ” یاتیھم اللہ والملئکۃ “ عقائد کا یہ اصولی اور مسلم مسئلہ ہے کہ ذات باری کے لیے نہ محل ہے نہ ظرف۔ اس لیے اسلامی عقیدہ کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے ” آنے “ یا ” جانے “ کے کوئی معنی ہی نہیں۔ امام رازی (رح) کہتے ہیں، اجمع المعتبرون من العقلاء علی انہ سبحانہ وتعالیٰ منزۃ عن المجیء او الذھاب (کبیر) اور آگے اس پر متعدد دلائل قائم کرنے کے بعد پھر لکھتے ہیں : ثبت انہ تعالیٰ لیس بجسم ولا بمتحیزوانہ لایصح المجیء اوالذھاب علیہ (کبیر) اس لیے اکثر مفسرین نے آیت کو متشابہات میں سے مانا ہے اور صاف لکھ دیا ہے کہ اس پر اجمالی ایمان کافی ہے، تفصیل عقل بشری سے مارواء ہے۔ چناچہ مفسر تھانوی (رح) کا ارشاد ہے ” اللہ تعالیٰ کے لیے آنا وغیرہ جہاں مذکور ہے اس کی حقیقت کے درپے ہونا جائز نہیں۔ کیونکہ جس طرح اس کی ذات کی حقیقت کسی کو مدرک نہیں ہوئی ہے، اسی طرح اس کی صفات وافعال کی کنہ معلوم نہیں ہوسکی۔ البتہ وجود اور وقوع پر اجمالا بلا تعیین کیفیت ایمان لے آنا چاہیے کہ اس سے زیادہ فکر میں پڑنا مالا یطاق کا قصد کرنا ہے۔ “ اور صاحب روح المعانی نے یہ لکھ کر چھوڑ دیا ہے کہ یاتیھم اللہ بالمعنی الائق بہ جل شانہ منزھا عن مشابھۃ المخدثات والتقید بصفات الممکنات اور ” مذہب السلف الصالح “ یہ نقل ہوتا چلا آرہا ہے کہ فالاولی السکوت عن التاویل وتفویض معنی الایۃ علی سبیل التفصیل الی اللہ تعالیٰ (کبیر) اور مفسر ومحدث بغوی کو یہ لکھنا پڑا۔ الاولی فی ھذہ الایۃ وفی ماشاکلھا ان یومن الانسان بظاھرھا ویکل علمھا الی اللہ تعالیٰ ویعتقد ان اللہ عزاسمہ منزہ عن سمات الحدث علی ذلک مضت ائمۃ السلف وعلماء السنۃ (معالم) اور بہتوں نے آیت میں (آیت) ” یاتیھم اللہ “ کے درمیان کوئی اور لفظ مثلا امر یا باس یا ایات وغیرہ محذوف مان کر معنی یہ کیے ہیں کہ اللہ کا حکم آپہنچے یا عذاب آجائے۔ اے ایات اللہ (کبیر) اے امر اللہ (کبیر) یاتیھم اللہ مما وعدھم من الثواب والعقاب قالہ الزجاج (بحر) یعنی بیاید عذاب او (شاہ ولی اللہ) اور ایک جماعت نے ملائکہ کی آمد اور قضی الامر کے پہلو کو مد نظر رکھ کر ان واقعات کو روز قیامت سے متعلق کیا ہے، کہ یہ منکرین ومعاندین قبول حق کے لیے اب شاید آمد قیامت ہی کے منتظر ہیں۔ قولہ یاتیھم اللہ اخبارعن حال القیامۃ (کبیر) یہ سب مذہب اپنی اپنی جگہ صحیح اور حق ہیں، لیکن ان سب میں بناء مشترک یہ ہے کہ آیت کا روئے سخن عام منکرین یا منافقین واہل کتاب کی جانب سمجھا گیا ہے۔ اے یکذبون بمحمد ﷺ (ابن جریر) ارید بہ المنافقون اواھل الکتب (روح) لیکن سیاق کلام پر نظر کر کے اگر روئے سخن صرف یہود تک محدود کردیا جائے تو بات بالکل صاف ہوئی جاتی ہے، اور بجائے اوپر کی تفسیرات کے صرف اتنا بڑھا دینا ہوگا “ حسب اعتقاد یہود “۔ اس لیے کہ یہود کا مذہب تشبیہ وتجسیم کا تھا۔ یہ لوگ خدا کی جسمانیت کے پوری طرح قائل تھے، اور جلوۂ حق کو بادلوں سے خاص طور پر متعلق سمجھتے تھے، بلکہ بادلوں کو گویا حق تعالیٰ کی سواری سمجھے ہوئے تھے ان کے مقدس صحیفوں اور نوشتوں میں اب تک اس قسم کی تعلیمات محفوظ چلی آتی ہیں ” وہ نور کو پوشار کی مانند پہنتا ہے، اور آسمانوں کو پردہ کے مانند پھیلاتا ہے، وہ اپنے بالا خانوں کو پانیوں میں بناتا ہے۔ اور بدلیوں کو اپنی رتھ ٹھہراتا ہے۔ اور ہوا کے بازوؤں پر وہ سیر کرتا ہے “۔ (زبور۔ 104 ۔ 3) خداوند ایک تندروابر پر سوار ہو کر مصر آوے گا۔ اور مصر کے بت اس کے حضور میں لرزاں ہوں گے “۔ (یسعیاہ۔ 19 ۔ 1) ” کروبی گھر کے داہنی طرف کھڑے ہوئے، اور اندرونی صحن بادل سے بھر گیا، تب خداوند کا جلال گروہ سے اٹھ گیا، اور گھر کے آستانہ پر آیا، اور گھر بادل سے بھر گیا، اور صحن خداوند کے جلا کی چمک سے معمور ہوا “۔ (حزقی ایل۔ 10:4) غرض خدائے تعالیٰ کا بادلوں سے بادلوں سے بطور مرکب یا سواری کے قریب ترین تعلق یہود کے تخیل میں رچ گیا تھا۔ یہاں تک کہ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے جدید ترین ایڈیشن (طبع چہاردہم) میں حق تعالیٰ کی جو تصویر نیم یہودی نیم مسیحی تخیل کے مطابق دی ہے (جلد 2 صفحہ 102) اس میں (معاذ اللہ) حق تعالیٰ کو صاف صاف بدلیوں پر سوار دکھایا ہے ! تو قرآن مجید نے آیت میں اپنی سے کوئی بات نہیں کہی ہے، صرف یہود کے خیال کی ترجمانی، اس کی صحت وغلطی سے بحث کیے بغیر، کردی ہے کہ یہ بنی اسرائیل اسی خیال میں پڑے ہوئے ہیں کہ خدا مع فرشتوں کے بدلیوں پر سوار ہو کر ان کے سامنے آجائے گا، اور ہر امر قطعی کا فیصلہ کرکے رکھ دے گا ؟ اللہ بڑے اونچے مرتبے کرے امام المفسرین امام رازی (رح) کے، ان کی نظر سے یہ نکتہ بھی نہ بچا، صاف اپنی تفسیر میں لکھ گئے ہیں، اور صرف لکھ ہی نہیں گئے، اسی کو پہلے وھو اوضح عندی من کل ما سلف، اور پھر ھذا الوجہ اظہر من عندی من کل ماسبق کہہ کر بہترین توجیہ بھی قرار دے گئے ہیں کہ یہود حق تعالیٰ کی تشبیہ اور تجسیم کے قائل تھے اور قرآن نے یہاں بجنسہ ان کے اعتقاد کو اس پر تنقید کیے بغیر دہرادیا ہے، اس لیے اس کے بعد نہ مجاز وغیرہ کسی تاویل کی حاجت رہتی ہے اور نہ کوئی اشکال ہی رہ جاتا ہے۔ اذا کان ھذا حکایۃ عن حال الیھود لم یمنع اجراء الایۃ علی ظاہرھا وذلک لان الیھود کانوا علی مذھب التشبیہ وکانوا یجوزون علی اللہ المجیء والذھاب وعلی ھذا التقدیر یکون ھذا الکلام حکایۃ عن معتقد الیھود القائلین بالتشبیہ فلایحتاج حینئذ الی التاویل ولا الی حمل اللفظ علی المجاز۔۔۔ ولیس فی الایۃ دلالۃ علی انھم محقون فی ذلک الانتظار اومبطلون وعلی ھذا التقدیر یسقط الاشکال (کبیر) ھل۔۔۔ الا ھل یہاں استفہامیہ نہیں، بلکہ جب الا کے ساتھ تو نفی کے معنی دیتا ہے۔ قرآن مجید میں اس کے اس استعمال کی اور بھی مثالیں ہیں، مثلا ھل جزاء الاحسان الاالاحسان۔ کونھا بمعنی النفی ھو جاء بعدھا الاکثیر الاستعمال فی القران وفی کلام العرب (بحر) معناہ النفی الھذا جاء بعدہ الا (عکبری) 765 (آخری فیصلہ اور تصفیہ کے لیے) کلام بطور تہدید کے ہے۔
Top