Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 223
نِسَآؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ١۪ فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ١٘ وَ قَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ مُّلٰقُوْهُ١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ
نِسَآؤُكُمْ : عورتیں تمہاری حَرْثٌ : کھیتی لَّكُمْ : تمہاری فَاْتُوْا : سو تم آؤ حَرْثَكُمْ : اپنی کھیتی اَنّٰى : جہاں سے شِئْتُمْ : تم چاہو وَقَدِّمُوْا : اور آگے بھیجو لِاَنْفُسِكُمْ : اپنے لیے وَاتَّقُوا : اور دوڑو اللّٰهَ : اللہ وَاعْلَمُوْٓا : اور تم جان لو اَنَّكُمْ : کہ تم مُّلٰقُوْهُ : ملنے والے اس سے وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دیں الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں،830 ۔ سو تم اپنے کھیت میں آؤ جس طرح چاہو،831 ۔ اور اپنے حق میں آیندہ کے لیے کچھ کرتے رہو،832 ۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو اور یقین رکھو کہ تمہیں اس سے ملنا ہے،833 ۔ اور آپ ایمان والوں کو خوشخبری سنا دیجئے،834 ۔
830 ۔ اور کھیت کہتے ہیں اس موضع زمین کو جس میں تخم ریزی ہوتی ہے اور اس میں سبزی، غلہ، نباتات کا نشوونما ہوتا ہے۔ کھیت والے اسے اپنی بہت بڑی دولت سمجھ کر نہایت درجہ عزیز رکھتے ہیں، اور اس سے خوب نفع حاصل کرتے ہیں۔ اسلام نے ہمبستری کا اصل مقصد طلب اولاد ہی کو رکھا ہے، گو اس کے دوسری پہلو یعنی طلب لذت کو بھی نظر انداز نہیں کیا ہے۔ 831 (اس تشبیہ اور اسکے مضمرات کو خوب سوچ سمجھ کر) (آیت) ” فاتوا حرثکم “ کنایہ ہے عورت کے ساتھ صحبت کرنے سے۔ اور قرآن حکیم ایسے موقعوں پر اکثر کنایہ ہی سے کام لیتا ہے، فقہاء مفسرین نے یہیں سے استنباط کیا ہے کہ ہر ایسے موقع پر مسلمان کو یہی چاہیے کہ حتی الامکان بات اشارہ کنایہ ہی میں کہے۔ فاتوا حرثکم من الکنایات اللطیفۃ والتعریضات المستحسنۃ فعلی کل مسلم ان یتادب بھا ویتکلف مثلھا فی المحاورات والمکاتبات (مدارک) (آیت) ” حرثکم “ ” کہاں “ کا یہ جواب خوب ملحوظ رہے، اتیان یا داخلہ کھیت ہی میں ہونا چاہیے۔ قبول تخم کے موضع پر عضو میں ہونا چاہیے، نہ کہ اس کے علاوہ یا اس سے خارج کسی اور موقع ومحل میں۔ اے نساؤکم مزرع اولادکم فاتوا مزرعکم کیف شئتم واین شئتم (ابن جریر) (آیت) ” انی “۔ انی “ کے مشہور ومعروف معنی کیف اور این کے ہیں، یعنی جس طرح کے، جس کیفیت کے ساتھ کے، اور جدھر سے، جس جہت سے کے، للبحث عن الحال والمکان (راغب) ھو بمعنی این وکیف (راغب) قرآن مجید میں انی کیف کے معنی میں آیا ہے۔ مثلا (آیت) ” انی یحییٰ ھذہ اللہ بعد موتھا “۔ یہاں انی یحییٰ صاف کیف یحییٰ کے معنی ہے۔ یا پھر (آیت) ” انی یکون لی غلام “۔ اس آیت میں قرآنیات کے بہترین ماہرین، ابن عباس ؓ صحابی نے اور مجاہد، قتادہ، عکرمہ وغیرہ تابعین نے انی کو اسی معنی میں لیا ہے۔ یایتھما کیف شاء (ابن جریر، عن ابن عباس ؓ وعکرمہ ومجاہد) اے کیف شئتم (ابن جریر۔ عن السدی) انی حرف استفھام یکون سوالا عن الحال والمحل معناہ کیف شئتم وحیث شئتم بعد ان یکون فی ضمام واحد (معالم) گویا یہاں صاف رد ہورہا ہے یہود کا جو مباشرت کی صرف ایک ہی وضع وہیئت کو جائز سمجھتے تھے، اور باقی سب کو ناجائز۔ متعدد آثار وروایات اسی مضمون کے تفسیروں میں منقول ملیں گے۔ اور آیت میں بتایا جارہا ہے کہ کھڑے ہونے، بیٹھے رہنے، چت لیٹے رہنے، پٹ لیٹنے، کروٹ کے بل لیٹنے کی ساری ہیئتیں جائز ہیں۔ اے کیف شئتم من قیام وقعود واضطجاع واقبال وادبار (جلالین) دوسرے معنی ” انی “ کے این کے، یعنی جدھر کے، جس رخ کے ہیں۔ اور اس معنی کو لے کر بعض گندہ مذاق لوگوں نے اس کی تشریح میں اپنی گندہ سیرتی کے عجیب عجیب مظاہرے کیے ہیں۔ حالانکہ ظاہر ہے کہ موضع ومحل میں کسی تبدیلی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ ابن کثیر نے تو اس معنی پر ابوحنیفہ (رح) وشافعی (رح) واحمد حنبل (رح) جیسے ائمہ فقہ اور ان کے شاگردوں اور بہت سے تابعین کا اجماع نقل کرکے یہاں تک لکھ دیا ہے کہ اس معنی سے تجاوز کرکے جواز ڈھونڈھنے والوں کا ان تمام علماء وفقہاء نے شدت سے انکار کیا ہے، بلکہ بعض نے تو اس تجاوز کو کفر کے حکم میں داخل کردیا ہے۔ انھم انکروا ذلک اشد الانکار وبینہم من یطلق علی فعلہ الکفر وھو مذھب جمھور العلماء۔ موضع ومکان تو بہرحال متعین ہے۔ آزادی صرف اسی موضع ومکان میں داخلہ کے لیے، ہر رخ، ہر جہت کی دی جارہی ہے۔ اے علی ای شق من الاحوال وذلک فی مکان الحرث (بحر) سئل ابن عباس عن الذی یاتی امرأتہ فی دبرھا فقال ھذا یسالنی عن الکفر (جصاص) من حیث شئتم وای وجہ اجبتم (ابن جریر) لیکن ان دو معروف ومتداول معنوں کے علاوہ انی کے ایک تیسرے معنی متی، یعنی جب اور جس وقت کے بھی نقل ہوئے ہیں، گویا (آیت) ” انی “ یہاں ظرف زمان کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ ضحاک تابعی اور بعض محققین قرآن اس طرف گئے ہیں۔ انی بمعنی متی قال الضحاک (بحر) اے متی شئتم (ابن جریم۔ عن الضحاک) اے فی متی زمان اردتم (بحر) متی شئتم من لیل ونھار (کبیر) ای وقت شئتم من لیل ونھار (کبیر) ای وقت شئتم من اوقات الحل (کبیر) انی شئتم من اللیل والنھار (ابن جریر۔ عن ابن عباس ؓ جس خدا کی بنائی ہوئی دنیا کی عملی زندگی میں اس قسم کے سوالات ومسائل روز مرہ پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں۔ اسی خدا کے اتارے ہوئے ہدایت نامہ میں اگر ان سے متعلق ہدایات و احکام نہ ہوتے، تو یہ بہت عجیب سی بات ہوتی۔ 832 آئندہ کے لیے کچھ بھیجنے کی چیز عمل صالح ہی ہوسکتے ہیں۔ یہ گویا اس کی تاکید ہے کہ عین لذت والتذاذ کے مشغلوں کے وقت بھی اپنی عبدیت کو، اپنی ذمہ داری کو بھول نہ جاؤ۔ تمامتر لذت پر ستی ہی میں غرق نہ ہوجاؤ، بلکہ ہوسکے تو اپنی لذتوں کو بھی عین طاعت و عبادت بنالو۔ 833 (کہ اسی کو استحضار ہر تقوی و خشیت کو آسان بنادے گا) آیت میں تعلیم اس کی ہے کہ مومن کے ہاتھ سے تقوی الہی کا سررشتہ کسی حال میں نہ چھوٹنے پائے۔ (آیت) ” واتقوا اللہ “۔ یعنی ہر حال میں، ایام حیات کے ہر ہر لمحہ میں، تقوائے الہی پر قائم رہو۔ (آیت) ” واعلموا انکم ملقوہ۔ قرآن مجید صرف احکام ہی نہیں دیتا، بلکہ وہ طریقہ اور تدبیر بھی بتاتا جاتا ہے جن سے ان احکام پر عمل آسان ہوجائے۔ حکم ابھی تقوی الہی کا ملا ہے، اور اب اس کی آسان تدبیر ارشاد ہورہی ہے کہ وہ لقاء آخرت کا استحضار ہے۔ (آیت) ” واعلموا “ سے محض جان لینا مراد نہیں، بلکہ اس علم کا تروتازہ رکھنا مراد ہے۔ 834 (اے پیغمبر ! ) یہاں جو اہل ایمان مراد ہیں، ان کے صفات ابھی اوپر بیان ہوچکے ہیں، وہ اعمال صالحہ کا اہتمام رکھتے ہیں (آیت) ”(قدموا لانفسکم) اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں (آیت) ”(واتقوا اللہ) “ اور جزاوسزا کا عقیدہ تروتازہ رکھتے ہیں (آیت) ” واعلموا انکم ملقوہ) ۔
Top