Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 39
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۠   ۧ
وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا : اور جن لوگوں نے کفر کیا وَکَذَّبُوْا : اور جھٹلایا بِآيَاتِنَا : ہماری آیات أُوْلَٰئِکَ : وہی اَصْحَابُ النَّار : دوزخ والے هُمْ فِیْهَا : وہ اس میں خَالِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اور جو لوگ کفر کریں گے اور ہماری آیتوں کو جھٹلائیں گے سو وہی دوزخی ہیں144 ۔ اور وہ اس میں (ہمیشہ) پڑے رہیں گے۔145 ۔
144 ۔ (آیت) ” کذبوا بایتنا “ اہل جنت کے ذکر میں ذات حق کے لیے ضمیر متکلم صیغہ جمع میں ہوگئی ہے۔ (آیت) ” بایتنا “ اہل لطائف نے لکھا ہے کہ وہ موقع اظہار خصورصیت و شفقت کا تھا۔ اس لیے ” میری “ ہی مناسب تھا۔ اب محل حاکمانہ جلالت واقتدار کا ہے، اس لیے یہاں ” ہماری “ ہی موزوں ہے۔ (آیت) ” اصحب النار “ یعنی دوزخ والے۔ وہ لوگ جو دوزخ کے ہوچکے۔ گویا وہ دوزخ ہی کی آبادی ہیں۔ الصاحب الملازم (راغب) ومعنی الصحبۃ اقتران بالشئی والغالب فی العرف ان تطلق علی الملازمۃ (روح) گویا جو لوگ ضابطہ شریعت سے انکار اور قانون الہی کی تکذیب میں لگے ہوئے ہیں انہوں نے اپنا مستقل تعلق دوزخ اور آتش دوزخ سے پیدا کرلیا ہے۔ آخرت میں یہی تعلق جو ابھی خفی اور غیر مرئی ہے، مجسم ومتشکل ہوجائے گا، عذاب آخرت سے ڈرانا صرف اسلام کے ساتھ مخصوص نہیں، گو جتنا زور اس پر قرآن مجید نے دیا ہے، اس کی نظیر بیشک کہیں نہیں ملتی۔ جہنم کے عذاب آتشیں بلکہ اس کے دوام وخلود کے ذکر سے بائبل کے صفحات بھی خالی نہیں۔ ” خداوند سلطنت کرتا ہے۔ ایک آگ اس کے آگے آگے جاتی ہے، اور اس کے دشمنوں کو ہر طرف جلاتی ہے “ (زبور۔ 97: 1، 3) ” فرشتے نکلیں گے اور شریروں کو راستبازوں سے جدا کردیں گے۔ اور انہیں آگ کی بھٹی میں ڈال دیں گے، وہاں رونا اور دانتوں کا پیسنا ہوگا “ (متی۔ 13: 49 ۔ 50) ” اے ملعونو ! میرے سامنے سے اس ہمیشہ کی آگ میں چلے جاؤ، جو ابلیس اور اس کے فرشتوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔۔۔ اور یہ ہمیشہ کی سزا پائیں گے “ (متی۔ 25:4 1 ۔ 46) ۔۔ جہنم میں ڈالا جائے جہاں اس کا کیڑا نہیں مرتا اور آگ نہیں بجھتی “ (مرقس۔ 9:48) 145 ۔ خلود کے اصل معنی ہیں کسی چیز کا ایک حال پر قائم و برقرار رہنا اور اس کے اندر کوئی تغیر، کوئی خرابی نہ پیدا ہونا۔ الخلود ھو تبری الشی من اعتراض الفساد وبقاؤہ علی الحالۃ التی بہ علیھا (راغب) اس سے ثانوی مفہوم دوام وہمیشگی کا پیدا ہوگیا۔ ثم استعبرللمبقی دائما (راغب) الخلد البقاء والدوام فی دار لا یخرج منھا کالخلود ودارالخلد الاخرۃ لبقاء اھلھا (تاج) خود قرآن مجید میں اس معنی میں بہت صاف طور آیا ہے، جہاں خالد کو باقی کے معنی میں لے کر فانی سے اس کا تقابل کیا ہے (آیت) ” وما جعلنا لبشر من قبلک الخلد، افائن مت فھم الخلدون (انبیاء۔ 34) اور خلود فی الجنۃ اور خلود فی النا رسے مراد ہے جنت کی نعمتوں یا جہنم کے عذاب کا دوام اور اہل جنت اور اہل جہنم کا کبھی اپنے اپنے مقام سے باہر نہ نکلنا۔ اہل جنت کے تنعم اور اہل جہنم کے عذاب کا دائم وغیرمنقطع ہونا امت کے اجماعی مسلمات میں سے ہے۔ اے مخلدون فیھا لا محیدلھم عنھا ولا محیص (ابن کثیر) فھم اصحاب العذاب الدائم (کبیر) والخلود ھھنا الدوام علی ما انعقد علیہ الاجماع (روح)
Top