Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 40
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِیْۤ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ١ۚ وَ اِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ
يَا بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ : اے اولاد یعقوب اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِیْ : جو اَنْعَمْتُ : میں نے بخشی عَلَيْكُمْ : تمہیں وَاَوْفُوْا : اور پورا کرو بِعَهْدِیْ : میرا وعدہ أُوْفِ : میں پورا کروں گا بِعَهْدِكُمْ : تمہارا وعدہ وَاِيَّايَ : اور مجھ ہی سے فَارْهَبُوْنِ : ڈرو
اے بنی اسرائیل146 ۔ میرا وہ انعام یاد کرو جو میں نے تم پر کیا۔147 ۔ اور مجھ سے وعدہ پورا کرو تو میں تم سے وعدہ پورا کروں۔148 ۔ اور تم صرف مجھ سے ڈرتے رہو۔149 ۔
146 (آیت) ” بنی اسر آء یل۔ “ مشہور ونامور پیمبر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) عراقی ثم شامی ثم حجازی (2 160 تا 1985 ق۔ م) سے مشہور ونامور دو نسلیں چلیں۔ ایک بی بی ہاجرہ (علیہا السلام) مصری کے بطن کے فرزند حضرت اسمعیل (علیہ السلام) سے۔ یہ نسل بن اسمعیل کہلائی۔ اور آگے چل کر قریش اسی کی ایک شاخ پیدا ہوئی۔ ان کا وطن عرب رہا۔ دوسری ، ، بی بی سارہ (علیہا السلام) عراقی کے بطن کے فرزند حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے فرزند حضرت یعقوب عرف حضرت اسرائیل (علیہ السلام) سے۔ یہ نسل بنی اسرائیل کہلائی۔ اس کا وطن شام رہا۔ قدیم جغرافیہ میں فلسطین کوئی الگ الگ ملک نہ تھا ، ، شام ہی کا جزو تھا۔ ایک تیسری نسل، تیری بیوی حضرت قطورہ سے چلی، اور بنی قطورہ کہلائی، لیکن اسے تاریخ میں اس درجہ کی اہمیت حاصل نہیں۔ بنی اسرائیل کا عروج صدیوں تک رہا۔ توحید کی علمبردار دنیا میں یہی قوم رہی۔ انبیاء ومرسلین ان کے درمیان ہوتے رہے۔ بڑے بڑے عابد وزاہد ان میں پیدا ہوا کیے۔ حکمران، سلاطین اور فوجی جنرل بھی ان میں بڑے بڑے پیدا ہوتے رہے۔ نزول قرآن کے وقت ان کا دنیوی اقتدار مدت ہوئی رخصت ہوچکا تھا۔ اپنے وطن سے نکل کر عراق، مصر وغیرہ اطراف و جوانب میں پھیل چکے تھے۔ اور ان کے بعض قبیلے حجاز و اطراف حجاز خصوصا یثرب (اسی کا نام بعد کو مدینۃ النبی پڑا) اور حوالی یثرب میں آباد ہوچکے تھے۔ ” بنی اسرائیل “ تو ایک قومی ونسلی اصطلاح ہے۔ مذہبی حیثیت سے یہ لوگ یہود تھے، اہل کتاب تھے۔ توریت محرف ومسخ شدہ ہوکر، لیکن بہرحال موجود ان کے درمیان تھی۔ سلسلہ وحی ونبوت اور عقیدہ جزاوسزا کے کسی نہ کسی صورت میں قائل تھے۔ علوم انبیاء ومعارف اولیاء کے حامل تھے۔ مالدار تھے، ساہوکار تھے۔ ساتھ ہی سفلی عملیات، سحروکہانت نیز تجارت کے بھی بڑے ماہر تھے۔ حجاز کی آبادی میں اس دینی ودنیوی تفوق کی بنا پر اہمیت انہیں اس وقت اچھی خاصی حاصل تھی، ملک کی عام آبادی مشرکوں اور بت پرستوں کی تھی ، ، وہ لوگ ایک طرف تو یہود کے علم وفضل کے قائل اور ان کی دینی ودنیوی اکثر حاجتوں میں انہیں کو مشکل کشا جانتے تھے اور جیسا کہ عام قاعدہ ہے کہ منظم وقاہر قوموں کے تمدن سے کمزور اور غیر منظم قومیں میں مرعوب ومتاثر ہوجاتی ہیں، مشرکین عرب بھی اسرائیل اخلاق، اسرائیلی روایات، بلکہ اسرائیل عقائد سے بہت کچھ متاثر ہوچکے تھے، اور بہت سے مسائل میں یہود کو اپنا استاد جانتے تھے۔ ان سب چیزوں کے علاوہ، یہود کے مذہبی نوشتوں اور اسرائیلیوں کی مقدس زبانی روایتوں، دونوں میں ایک آنے والے نبی کی بشارت موجود تھی اور یہ لوگ اس نبی موعود کے ظہور کے منتظر رہتے تھے، ان اسباب عام وخاص دونوں کی بنا پر یہ بالکل قدرتی تھا کہ قرآن مجید میں تخاطب اس قوم کے ساتھ ہو اور خوب مفصل ہو۔ اس منزل پر پہنچ کر بہتر ہوگا کہ ایک نظر قرآن مجید کی ترتیب بیان پر بھی کرلی جائے، قرآن مجید کا اصل تخاطب ساری کائنات انسانی سے ہے۔ اسی مناسبت سے رکوع اول میں بیان اس کا ہوا کہ نوع انسان کی حقیقی تقسی میں کل دو ہیں۔ ایک اچھے یا مومن ، ، دوسرے برے یا کافر ، ، مومن یا نیک وہ جو قرآن مجید کے دستور حیات کو تسلیم کرتے ہیں، کافر یا بد وہ جو اس سے انکار کرتے ہیں۔ دوسرے رکوع میں بیان کافروں ہی کی ایک خاص قسم، مخفی کافروں کا ہوا۔ اور یہ بتایا گیا کہ یہ لوگ بھی ایمان ونجات سے محروم ہی رہیں گے۔ تیسرے رکوع میں مخاطب ساری نسل انسانی کو کیا گیا، اور قرآن مجید کا اصل پیام یعنی توحید و رسالت بیان کردیا گیا۔ چوتھا رکوع تاریخ نسل انسانی پر ہے۔ اسی میں یہ بیان ہوا کہ انسان کی اصلی غرض آفرینش دنیا میں قانون الہی کی تنفیذ ہے۔ اور حاکمیت الہی کی نیابت۔ ذرا سی غفلت میں نسل انسانی کا دیرینہ دشمن شیطان اس کو پچھاڑ سکتا، اور حق سے باطل کی طرف، نور سے ظلمت کی جانب اسے موڑ سکتا ہے۔ لیکن انسان اگر ذرا بھی ہمت اور توجہ صرف کرتا رہے، اور انبیاء کی بتائی ہوئی اور دکھائی ہوئی صراط مستقیم پر قائم رہے تو وہی غالب ومنصور رہے گا۔ اب پانچویں رکوع میں بیان اس کا شروع ہوتا ہے (اور اس کی تفصیل متعدد رکوعوں تک چلتی رہے گی) کہ مدت دراز ہوئی ایک بڑے مقبول، برگزیدہ بندہ کی اولاد میں ایک خاص نسل کو توحید کی نعمت خاص سے سرفراز کیا گیا تھا مگر وہ قوم اس کی نااہل ثابت ہوئی۔ موقعے اسے بار بار دیئے گئے، رعایت اس کے ساتھ بار بار کی گئی، لیکن ہر بار اس نے اس نعمت کو اپنے ہاتھوں ضائع کیا، یہاں کہ اپنی نسل کے آخری پیغمبر (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) کی مخالفت میں تو حد ہی سے گزر گئی۔ طویل ومسلسل مراعات کے بعد اب حکومت الہی کا دستور ایک نیا ضابطہ اختیار کرتا ہے۔ اس ناشکر گزار، نافرمان، عصیان پیشہ قوم کو اس منصب سے معزول کیا جاتا ہے اور یہ نعمت اس سے چھین کر ایک اسمعیلی پیغمبر کے واسطہ سے دنیا کی تمام قوموں اور ساری نسلوں کے واسطے عام کی جارہی ہے۔ 147 ۔ اس انعام خداوندی کی تصریح کے لیے ملاحظہ ہوں حواشی 146 و 162 بہرحال کوئی ایسا انعام تھا جو نسل اسرائیل پر نسل اسرائیل کی حیثیت سے تھا۔ 148 ۔ توریت نسل اسرائیل پر احسانات الہی اور خداوندی نعمتوں کی یاددہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ عھدی یعنی تمہارا وہ عہد جو میرے ساتھ ہے۔ طاعت الہی و اطاعت انبیاء کا عہد۔ بما عاھدتمونی من الایمان لی والطاعۃ لی (کشاف) توریت میں بھی اسی عہد کا ذکر جابجا ہے۔ مثلا ” تو نے آج کے دن اقرار کیا ہے کہ خداوند میرا خدا ہے۔۔ اور میں اسی کی راہوں پر چلوں گا۔ اور اس کی شرطوں اور اس کے حقوق اور اس کے حکموں کی محافظت کروں گا۔ اور اس کی آواز کا شنوا ہوں گا “ (استثناء 26: 17) عھدکم۔ یعنی جو عہد میں نے تم سے تمہارے ایمان وطاعت پر بہ طور انعام کر رکھا ہے۔ اے ارضی عنکم وادخلکم الجنۃ (کبیر، عن ابن عباس ؓ توریت میں اس کا ذکر بھی جابجا ہے۔ مثلا ” اور خداوند نے بھی آج کے دن تجھ سے اقرار فرمایا ہے “ (استثناء 26: 17) ” اگر تم میری آواز کے فی الحقیقت سننے والے ہو گے اور میرے عہد کو حفظ کرو گے تو تم ساری قوموں سے زیادہ میرے ایک خزانہ خاص ہوگے “۔ (خروج۔ 19:5) (آیت) ” اوفوا۔ مرشد تھانوی مدظلہ، نے فرمایا، کہ وفائے عہد جس کا یہاں ذکر ہے، اس کے مراتب میں بہت وسعت ہے۔ ادنی مرتبہ بندہ کی طرف سے ادائے کلمہ شہادت ہے، اور حق تعالیٰ کی طرف سے حفاظت جان ومال۔ 149 ۔ (نہ کہ اپنی ہی جیسی مخلوق سے) توحید کے لیے خطاب عام جملہ عالم انسانیت سے رکوع 3 میں ہوچکا ہے۔ اب خطاب خاص اسی مخصوص حامل توحید قوم، بنی اسرائیل سے ہے۔ لیکن یہاں اشارہ شرک جلی اور بت پرستی سے زیادہ شرک خفی اور ضعف ایمان کی جانب ہے۔ یہ اخلاقی بیماری اسرائیلیوں کی ساری قوم میں پھیل چکی تھی ،۔ اور خالق کی رضا اور عدم رضا کے بجائے انسانوں کو راضی رکھنے کی پروا اور ان کی ناخوشی سے بچنے کی اہمیت اچھے اچھے علماء ومشائخ یہود کے دلوں میں گھر کرچکی تھی، انجیل میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کے مواعظ میں اس قسم کی ہدایتیں اور تنبی ہیں کثرت سے ملتی ہیں۔
Top