Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 51
وَ اِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰۤى اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ
وَاِذْ وَاعَدْنَا : اور جب ہم نے وعدہ کیا مُوْسَىٰ : موسیٰ اَرْبَعِیْنَ لَيْلَةً : چالیس رات ثُمَّ : پھر اتَّخَذْتُمُ : تم نے بنا لیا الْعِجْلَ : بچھڑا مِنْ بَعْدِهِ : ان کے بعد وَاَنْتُمْ ظَالِمُوْنَ : اور تم ظالم ہوئے
ترجمہ اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ کرلیا تھا،170 ۔ پھر تم نے ان کے پیچھے گوسالہ کو اختیار کرلیا،171 ۔ اور تم (سخت) ظالم تھے،172 ۔
170 جب حضرت موسیٰ اپنی قوم کو مصری حکومت کے پنجہ غضب سے نکال لائے۔ تو اب مشیت خداوندی یہ ہوئی کہ اس قوم کو ایک پورا نظام شریعت اور دستور زندگی عطاہو۔ چناچہ حضرت موسیٰ جزیرہ نمائے سینا کے ایک پہاڑ کی چوٹی کوہ طور پر نوشتہ غیبی لینے کے لیے ایک چلہ کے لیے طلب کیے گئے۔ موسیٰ ۔ موسیٰ بن عمران سلسلہ اسرائیلی کے سب سے زیادہ مشہور جلیل القدر پیمبر کا نام ہے۔ توریت میں ہے کہ عمر ایک سو بیس سال کی پائی (استثناء۔ 24:7) آپ کا زمانہ مؤرخین اور اثریین کا تخمینہ ہے کہ پندرھویں اور سولہویں صدی قبل مسیح (علیہ السلام) کا تھا۔ سال ولادت غالبا 1520 ء ق، م۔ سال وفات غالبا 1400 ق، م۔ (آیت) ” اربعین لیلۃ۔ چالیس رات دن مراد ہیں۔ توریت میں ہے :۔ ” اور موسیٰ پہاڑ پر چالیس دن رات خداوند کے پاس رہا “۔ (خروج 34:28) اسلامی روایتوں میں آتا ہے کہ یہ زمانہ ذی قعدہ کے پورے مہینہ اور ذی الحجہ کے پہلے عشرہ کا تھا۔ قیل انھا ذوالقعدۃ بکمالہ وعشرمن ذی الحجۃ (ابن کثیر) مرشد تھانوی مدظلہ نے فرمایا کہ اہل سلوک کے یہاں جو چلہ کی میعاد متعارف ہے، اس کی اصل یہیں سے ہے۔ 172 ۔ (اپنے حق میں) قرآن مجید نے اس قسم کے فسق شدید بلکہ شرک کو اکثر ” ظلم “ ہی سے تعبیر کیا ہے۔ اور واقعی اس سے بڑھ کر ظلم انسان کا اپنے حق میں اور ہو بھی کیا سکتا ہے۔ اسرائیلیوں میں یہ گمراہی آئی کہاں سے ؟ اس سوال کے جوابات مختلف دیئے گئے ہیں ایک قول ہے کہ یہ مصریوں کی گاؤ پرستی کا عکس تھا۔ دوسرا قول ہے کہ مشرک کنعانیوں (فلسطینیوں) کے ہم جوار ہونے کا اثر تھا۔ تیسرا قول ہے کہ گوسالہ مورت تھی چندرماں دیوتا کی، اور گوسالہ پرستی مرادف تھی ماہتاب پرستی کی۔ بہرحال یہ شرک جس راہ سے بھی آیا ہو، قرآن نے اسے ہی شرک قرار دیا، خواہ وہ مورتی (نعوذباللہ) خدائے واحدہی کی کیوں نہ بنائی گئی ہو۔ مرشدتھانوی مدظلہ، نے فرمایا کہ حلول باری تعالیٰ کی جناب میں محال ہے ورنہ اگر محض غلطی ہوتی تواسرائیلی اس میں معذور سمجھے جاتے۔
Top