Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 58
وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ فَكُلُوْا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّ قُوْلُوْا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطٰیٰكُمْ١ؕ وَ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ
وَاِذْ قُلْنَا : اور جب ہم نے کہا ادْخُلُوْا : تم داخل ہو هٰذِهِ : اس الْقَرْيَةَ : بستی فَكُلُوْا : پھر کھاؤ مِنْهَا : اس سے حَيْثُ شِئْتُمْ : جہاں سے تم چاہو رَغَدًا : با فراغت وَادْخُلُوْا : اور تم داخل ہو الْبَابَ : دروازہ سُجَّدًا : سجدہ کرتے ہوئے وَقُوْلُوْا : اور کہو حِطَّةٌ : بخش دے نَغْفِرْ : ہم بخش دیں گے لَكُمْ : تمہیں خَطَايَاكُمْ : تمہاری خطائیں وَسَنَزِيْدُ : اور ہم عنقریب زیادہ دیں گے الْمُحْسِنِیْنَ : نیکی کرنے والوں کو
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے کہا تھا،193 ۔ کہ اس بستی میں داخل ہوجاؤ،194 ۔ اور اس میں جہاں سے چاہوخوب کھاؤ پیو،195 ۔ اور دروازہ (شہر) میں عاجزی سے جھکے ہوئے داخل ہونا،196 ۔ اور کہتے جانا توبہ ہے،197 ۔ ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے اور ہم نیک کاروں کو زیادہ ہی دیتے ہیں،198 ۔
193 ۔ (بنی اسرائیل سے ان کے پیمبر (علیہ السلام) کی وساطت سے) یہ واقعہ اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ کا ہے تو وہی مراد ہیں، اور اگر ان کے بعد کا ہے تو ان کے جانشین حضرت یوشع (علیہ السلام) قرآن مجید، جیسا کہ پہلے بھی کہا جاچکا ہے، توریت کے بعض حصوں کی طرح تاریخ کی کوئی کتاب نہیں۔ اس لیے اس کے بیانات میں تسلسل زمانی اور ترتیب تاریخی ہرگز ضروری نہیں، اس کا مقصود صرف نتایج وعبر ہیں، اخلاقی وروحانی سبق، نہ کہ واقعات کی روداد، اس ایک حقیقت کو پیش نظر نہ رکھنے سے یہود ونصاری آج قرآن فہمی میں طرح طرح کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، یہ واقعہ جس کا ذکر اب شروع ہو رہا ہے۔ تاریخ اسرائیل ہی کا ایک مسلم واقعہ ہے۔ زمانہ تاریخی اس کا جو کچھ بھی ہو۔ 194 ۔ یہ بستی کون سی تھی ؟ ممکن ہے کہ فلسطین کا مشہور شہر اریحا ہو۔ جو موجودہ نقشوں میں Jericho کے نام سے ملے گا، یہ بحرمردہ کے شمالی ساحل سے پانچ میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ اسے اسرائیلیوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے بعد حضرت یوشع (علیہ السلام) کے زمانہ میں فتح کیا تھا۔ قدیم ائمہ تفسیر کا رخ، بیت المقدس کے بعد پھر اسی شہر کی جانب ہے قریۃ اریحا (ابن عباس ؓ ھی اریحا قریبۃ من بیت المقدس (ابن جریر۔ عن ابن زید) اس کے علاوہ بھی متعدد شہروں اور مقامات کے نام لیے گئے ہیں۔ بعض شہروں کے نام تک اب بدل گئے ہیں۔ مثلا ایلہ کہ اب اسے عقبہ کہتے ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ مراد شہر سطیم ہو۔ یہ علاقہ موآب میں واقع ہے، جو بحر مردہ کے مشرق میں ہے۔ شہر دریائے یردن کے مشرق (بائیں) کنارہ پر ہے۔ بحرمردہ کے شمال ومشرق میں۔ بنی اسرائیل کی دشت پیمائی کے زمانہ میں یہ شہر گویا ان کا سرحدی ناکہ تھا، عربی میں اسے وادی النار بھی کہتے ہیں اور وادی ستی مریم بھی۔ بعض مفسرین نے جو درون کا نام لیا ہے، اس سے بھی یہی مراد معلوم ہوتا ہے۔ 195 ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شہر خوب وسیع اور خوب آباد پررونق تھا۔ 196 ۔ (بہ طور اظہار عجزونیاز و عبودیت کے) کہ یہی شان مومنین مخلصین کی ہے۔ (آیت) ” الباب ‘۔ دروازہ سے مراد شہر کا پھاٹک ہے۔ قدیم شہروں کے اردگرد ایک بلند چہار دیواری شہر پناہ کے نام سے مشہور ہوتی تھی شہر میں داخل ہوتے وقت اسی شہر پناہ کے پھاٹک سے گزرنا ہوتا تھا (آیت) ” سجدا “ یہاں اپنے لغوی معنی میں ہے یعنی عاجزی سے فروتنی کے ساتھ۔ سجدۂ نماز کی ہیئت مخصوص مراد نہیں سجدا ای متذللین منقادین (راغب) خاشعۃ خاصعۃ (ابن جریر، ابن عباس ؓ ارادبہ الخضوع وھو الاقرب (کبیر) قیل متواضعین خضوعالاعلی ھیءۃ متعینۃ (قرطبی) توریت اس اہم جزو کے تذکرہ سے خالی ہے۔ 197 ۔ گویا زبان بھی قلب واعضاء کی طرح اظہار تذلل کرتی رہے، یہ فرق ہے اللہ والوں کے لشکر اور دنیا دار بادشاہوں کے لشکروں کے داخلہ میں، ایک کے ہاں قومی بینڈ اور ترانے بجتے ہوتے ہیں، وطنی نعرے لگتے ہوتے ہیں، یعنی قدم قدم پر قومی شیخی اور وطنی بڑائی کا اظہار دوسرے کے ہاں قلب خشوع سے لبریز اور زبان پر تسبیح (آیت) ” قولوا حطۃ “ سے یہ مراد نہیں کہ بعینہ لفظ (آیت) ” حطۃ “ کا تلفظ ادا کرتے جاؤ۔ یہ لفظ تو عربی ہے، اور اسرائیلیوں کی زبان عربی نہیں، عبری یا عبرانی تھی۔ مراد یہ ہے کہ انہیں زبان سے بھی کلمات توبہ و استغفار ادا کرتے رہنے کا حکم ملا تھا۔ وقدروی عن ابن عباس انھم امروا بھذا اللفظۃ بعینھا وھذا محتمل ولکن اقرب خلافہ بوجھین احدھما ان ھذہ الفظۃ عربیۃ وھم ماکانوا یتکلمون بالعربیۃ وثانیھما وھو الاقرب انہم التوبۃ علی ذکر لفظۃ بعینھا (روح) اور ایسا ہی صاحب بحر نے بھی کہا ہے۔ تفسیر قرطبی اور ابن العربی مالکی کی احکام القرآن میں یہ اں طویل بحث اس کی موجود ہے کہ آیا شریعت کے الفاظ میں تبدیلی جائز ہے ؟ خلاصہ بحث یہ ہے کہ جہاں الفاظ ہی تعبد کے ہوں، یعنی حکم انہیں الفاظ ہی کا ہو، وہاں تبدیلی جائز نہیں، لیکن جہاں اصل مقصود معانی ہوں، وہاں لفظی تبدیلی جائز ہے بشرطیکہ معنوی تغیر تک نہ پہنچ جائے۔ 198 ۔ یعنی ان لوگوں کو جو نیک کاری میں اخلاص کامل سے لگے ہوئے ہیں، عفو ومغفرت کا وعدہ تو سب ہی توبہ کرنے والوں سے ہوچکا، اس کے بعد یہ ذکر مزید فضل وکرم کا ہے۔
Top