Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 57
وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰى١ؕ كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ١ؕ وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ
وَظَلَّلْنَا : اور ہم نے سایہ کیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْغَمَامَ : بادل وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے اتارا عَلَيْكُمُ : تم پر الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى : من اور سلوا كُلُوْا : تم کھاؤ مِنْ ۔ طَيِّبَاتِ : سے۔ پاک مَا رَزَقْنَاكُمْ : جو ہم نے تمہیں دیں وَ مَاظَلَمُوْنَا : اور انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا وَلَٰكِنْ : لیکن کَانُوْا : تھے اَنْفُسَهُمْ : اپنی جانیں يَظْلِمُوْنَ : وہ ظلم کرتے تھے
اور ہم نے تمہارے اوپر ابر کا سایہ کردیا،189 ۔ اور ہم نے تمہارے اوپر من وسلوی اتارا،190 ۔ کھاؤان پاکیزہ چیزوں میں سے جو ہم نے تم کو دے رکھی ہیں،19 1 ۔ اور انہوں نے زیادتی ہم پر نہیں کی بلکہ زیادتی اپنی ہی جانوں پر کرتے رہے،192 ۔
189 ۔ (تمہیں آفتاب کی تپش سے بچانے کے لیے جب کہ تم صحرائے سینا میں بھٹک رہے تھے) جزیرہ نمائے سینا جیسے ریگستانی ملک اور چٹیل میدان کی دھوپ میں سایہ میسرآجانا واقعی سایہ رحمت سے کم نہیں۔ توریت میں ستون ابر اور ستون زر دونوں کا ذکر بہ طور معجزہ کے ہیں سیاق قرآنی سے معجزہ کا پہلو لازم نہیں آتا۔ ذکر عام نعمتوں کا ہورہا ہے جو بنی اسرائیل پر ان کی توریت میں ہے :۔ ” اور خداونددن کو بدلی کے ستون میں تاکہ انہیں راہ بتائے اور رات کو آگ کے ستون میں ہو کے تاکہ انہیں روشنی بخشے ان کے آگے چلا جاتا تھا تاکہ دن رات چلے جائیں اور بدلی کا ستون دن کو اور آگ کا ستون رات کو ان کے آگے سے ہرگز نہ اٹھاتا تھا۔ “ (خروج۔ 13:2 1، 22) روایات یہود میں حسب بیان جیوش انسائیکلوپیڈیا (جلد 4 صفحہ 123) یہ تصریح بھی موجود ہے کہ بنی اسرائیل جب کثرت معاصی میں مبتلا ہوجاتے تھے تو یہ ابران پر سایہ کرنا چھوڑ دیتا تھا۔ (آیت) ” الغمام “ قرآن مجید نے اسے محض ابر بتایا ہے۔ یہود اسے تخت خداوند سمجھتے تھے۔ 190 ۔ (اسی دشت سینا میں انزل۔” اتارا “ سے یہ مراد لازمی طور پر نہیں ہوتی کہ وہ چیز کسی غیر طبیعی، معجزانہ طریق پر اتری ہو۔ پانی، لوہا، کھانے کے سامان وغیرہ جو اپنے معمولی اور طبعی طریقوں پر انسان کے کام کے لیے پیدا ہوتے رہتے ہیں، ان سب کے لیے قرآن مجید کی زبان میں، اتارنے ہی کا لفظ آیا ہے۔ من اہل لغت کی تحقیق میں یہ ایک میٹھی میٹھی رطوبت تھی۔ جو درختوں پر گرا کرتی تھی۔ المن شی کالطل فیہ حلاوۃ یسقط علی الشجر (راغب) ، عربی میں اسم جنس ہے، خیر وشر کی طرح، جس کا واحد نہیں آتا۔ اسم جنس لاواحدلہ من لفظہ مثل الخیر والشرقالہ الاخفش (قرطبی) ۔ معنی اس کے متعدد بیان کیے گئے ہیں، میٹھا گوند، شہد، شربت وغیرہ۔ لیکن اکثر کا خیال ہے کہ یہ ترنجبین کے مرادف ہیں۔ الترنجبین وعلی ھذا اکثر المفسرین (قرطبی) الاکثرون علی ان المن ھو الترنجبین (معالم) اور ترنجبین سے متعلق قدیم طب کی کتابوں میں یہ درج ہے کہ شہد کی طرح جمی ہوئی اور لذیذ، آسمان گرنے والی شبنم کی قسم کی چیز ہے۔ الترنجبین طل یقع من السماء وھو ندی شبیہ بالعسل جامد متحبب (مفردات ابن البیطار) بہرحال اتنا یقینی ہے کہ کوئی لذیذ قدرتی غذا تھی جو بنی اسرائیل کو مسلسل مسافرت کے زما نہ میں، بلامشقت وتعب مل جاتی تھی، توریت کی تصریحات اس بارے میں حسب ذیل ہیں :۔ ” صؓح کو لشکر کے پاس اوس پڑی۔ اور جب اوس پڑچکی تو کیا دیکھتے ہیں کہ بیابان میں ایک چھوٹی چھوٹی گول چیز ایسی سفید جیسے برف کا چھوٹا ٹکڑا زمین پر پڑی ہے، اور بنی اسرئیل نے دیکھ کر آپس میں کہا کہ من ہے۔ کیونکہ انہوں نے نہ جانا کہ وہ کیا ہے۔ تب موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں کہا کہ یہ روٹی ہے جو خداوند نے کھانے کو تمہیں دی ہے۔ “ (خروج۔ 16: 14، 15) ” اسرائیل کے گھرانے نے اس کا نام من رکھا اور وہ دھنیے کے بیج کی طرح سفید تھی، اور مزہ اس کا شہد میں ملی ہوئی پھلوری کا تھا۔ “ (خروج۔ 16:3 1) ” اور من سوکھے دھنیے کی مانند تھا۔ اور اس کا رنگ موتی کے دانہ کا سا تھا۔ لوگ ادھر ادھر جاکر اسے جمع کرتے تھے۔ اور چکی میں پیستے تھے۔ یا اوکھلی میں کوٹتے تھے، اور تو وں پر پکاتے تھے اور پھلکیاں بناتے تھے۔ اس کا مزہ تازہ تیل کا سا تھا اور رات کو جب خیموں پر اوس پڑتی تھی تو من بھی ان پر پڑتا تھا۔ “ (گنتی۔ 1 1:8 ۔ 1 1) سلوی۔ ایک قسم کا بٹیر ہے۔ بٹیر جزیرہ نمائے سینا کا خاص جانور ہے۔ بڑی کثرت سے پایا جاتا ہے۔ گرمی میں شمال کی طرف چلا جاتا ہے۔ جاڑے میں جنوب کی طرف پھر آجاتا ہے۔ اڑتا اونچا نہیں۔ بہت نیچے رہتا ہے۔ تھک بہت جلد جاتا ہے اور شکار بڑی آسانی سے ہوجاتا ہے۔ (جیوش انسائیکلوپیڈیا۔ جلد 10 صفحہ 285) اس کا شمالی سفر مصر سے فلسطین کی جانب عموما مارچ میں ہوتا ہے۔ اور جنوبی فلسطین سے مصر کی طرف عموما نومبر میں۔ یہ اسرائیلی بٹیر وہ تھے جو مارچ اپریل میں رات کے وقت اپنی شمالی پرواز میں ہوتے ہیں، بحرقلزم شمال میں جہاں دو حصوں میں تقسیم ہوا ہے، وہاں تک یہ اپنے سالانہ اڑان میں آتے ہیں۔ اور وہاں سے جزیرہ نمائے سینا کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ سمندری ہوا ان کی بیشمار تعداد بہ آسمانی اسرائیلیوں کے ڈیروں تک لے آتی تھی (ڈکشنری آف دی بائبل۔ از ڈاکٹرہیسٹنگز۔ جلد 4 صفحہ 179) ان کا گوشت چربی دارہوتا ہے، رکھنے سے بہت جلد خراب ہوجاتا ہے۔ (انسائیکلوپیڈیا ببلیکا، کلام 3699) ۔ واضح رہے کہ سارے رکوع میں اور اس کے بعد بھی ؟ ذکر بنی اسرائیل کے ساتھ حق تعالیٰ کے معاملات کا ہے۔ اور ان معاملات کو حق تعالیٰ نے بہ طور اپنے احسانات و انعامات کے گنایا ہے۔ ضرور نہیں کہ یہ سارے واقعات اپنے عام طبیعی اسباب سے ہٹ کر بہ صورت معجزات ہی پیش آئے ہوں، اصل مقصود یہاں احسانات والطاف خداوندی کی یاد دہی ہے۔ خواہ وہ حسب عادت ہوں، خواہ بہ طور خارق عادت، یعنی قانون تکوینی کی عام دفعات کے ماتحت، یا کسی خصوصی دفعہ کے مطابق۔ اہل تفسیر نے عموما ابر کی سایہ افگنی، من وسلوی کے نزول، اور چٹان سے چشمہ کی روانی ، ، سب کو معجزات میں شمار کیا ہے۔ لیکن کسی کی تحقیق میں اگر یہ سب امور عام واقعات طبیعیہ میں داخل ہوں اور ان کی توجیہ عام اور معمولی قوانین تکوینی کے ماتحت ہوجائے، یا آج کل کی اصطلاح میں ان کے سائینٹفک اسباب دریافت ہوجائیں، تو اس کا اثر ارشادات قرآنی پر مطلق نہیں پڑے گا۔ ان کی احسانی اور انعامی حیثیت بہرصورت قائم رہتی ہے۔ اور اسی کی تذکیر قرآن کا مقصود ہے۔ توریت میں البتہ اس کے برعکس، سارا زور ان واقعات کی معجزانہ حیثیت پر ہے۔ 191 ۔ (اور ان چیزوں کا ذخیرہ نہ کرو۔ روز کی روز خرچ کرتے رہو) حکم اسرائیلیوں کو یہ ملا تھا کہ بلاضرورت ان غذاؤں کا ذخیرہ نہ کرتے جاؤ۔ معلوم ہوتا ہے کہ ” ذخیرہ اندوزی “ Hoarding کی عادت یہودیوں کی آج کی نہیں، بہت قدیم ہے۔ 192 ۔ (اس حکم کی خلاف ورزی کرکے) مرشد تھانوی مدظلہ نے فرمایا کہ باوجود معاصی کے نعمتوں کا جاری رہنا استدراج اور سخت خطرناک ہے اور اس میں جاہل صوفیوں کو سخت دھوکا ہوا ہے چناچہ وہ کثرت جاہ ومال کو علامت مقبولیت کی سمجھتے ہیں، حرص میں مبتلا، توکل سے ناآشنا، اور نافرمانی کے عادی بنی اسرائیل سے تعمیل اتنے معمولی حکم کی بھی نہ ہونے پائی۔ لگے ان غذاؤں کا ذخیرہ فراہم کرنے، اور لطیف غذائیں باسی ہو ہو کر سڑنے لگیں۔ توریت میں ہے :۔ اور باوجودیکہ موسیٰ نے کہا کہ کوئی اس میں سے صبح تک باقی نہ چھوڑے۔ وہ اس کے سننے والے نہ ہوئے۔ اور بعضوں نے صبح تک کچھ رہنے دیا، سو اس میں کیڑے پڑگئے اور سڑ گیا۔ “ (خروج۔ 16:20) یہود جو مشرک قوموں کے اثر سے عقیدہ تجسیم کے قائل تھے۔ یعنی خدا تعالیٰ کو بھی بشری اوصاف سے متصف جانتے تھے، اور اس کے تاثر وانفعال کے معتقد تھے، انہیں یہ بار بار بتانے اور یاد دلانے کی ضرورت تھی کہ خدا تعالیٰ کسی نفع ونقصان سے متاثر نہیں ہوا کرتا۔ یہ انسان ہی ہے جو احکام الہی کی نافرمانی کرکے نقصان اٹھاتا ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
Top