Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 6
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
إِنَّ : بیشک الَّذِينَ : جن لوگوں نے کَفَرُوا : کفر کیا سَوَاءٌ : برابر عَلَيْهِمْ : ان پر أَ أَنْذَرْتَهُمْ : خواہ آپ انہیں ڈرائیں أَمْ لَمْ : یا نہ تُنْذِرْهُمْ : ڈرائیں انہیں لَا يُؤْمِنُونَ : ایمان نہ لائیں گے
ترجمہ بیشک جو لوگ کفر (اختیار) کئے ہوئے ہیں16 ۔ ان کے حق میں یکساں ہے، خواہ آپ انہیں ڈرائیں، یا آپ انہیں نہ ڈرائیں17 ۔ وہ ایمان نہ لائیں گے18 ۔
16 (اور قیام دلائل کے باوجود اس پر اڑے ہوئے ہیں) اے اثبتوا علی الکفر (ابن عباس ؓ ایسے لوگ ظاہر ہے کہ علم الہی میں کفر ہی پر مرنے والے ہیں۔ جو لوگ دلائل حق میں غور نہیں کرتے اور باطل پر جمے رہتے ہیں، ان کی استعداد قبول حق کے باب میں روز بروز کمزور ہوتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ بالکل مردہ ہوجاتی ہے۔ آیت میں خصوصی اشارہ یہود مدینہ کی جانب ہے۔ ان کا کفر کفر جحود کی قسم کا تھا۔ یعنی یہ نبی ﷺ آخرالزمان کی بابت پیشگوئیوں اور ان کی علامتوں سے اچھی طرح واقف تھے۔ اور پھر دانستہ اغماض واخفا کرتے رہتے تھے کہ اپنی دینی ریاست اور دنیوی سیادت میں فرق نہ پڑنے پائے۔ واما معنی الکفر فانہ الجحود ذلک ان الاحبار من یھود المدینۃ جحدوا نبوۃ محمد ﷺ و ستروہ عن الناس وکتموا امرہ (ابن جریر) ۔ 17 (لیکن آپ کی دعوت وتبلیغ برابر جاری رہے۔ آپ کا اجر اس سے ثابت ہوتا رہے گا) آج معمولی مبلغ بھی اپنی دھن کے پکے ہوتے ہیں، تو رسول اللہ ﷺ تو دنیا کے لیے ” مبلغ اعظم “ تھے۔ دین الہی کی اشاعت کے لیے آپ ﷺ کی تڑپ کا کیا کہنا۔ آپ ﷺ کو حرص اگر تھی تو اسی کی کہ کافر سب کے سب دائرہ اسلام میں داخل ہوجائیں۔ یہاں یہ حقیقت آپ کو بتلائی گئی ہے کہ آپ کچھ کر ڈالیے ان کے حق میں سب یکساں ہے۔ یہ بدبخت اپنی صلاحیت حق شناسی کو ضائع کرچکے ہیں۔ لیکن آپ کا اجر تبلیغ بہرحال ثابت ہے۔ فلا تذھب نفسک علیھم حسرت فمن استجاب لک فلہ الحظ الاوفر ومن تولی فلا تحزن علیہم (ابن کثیر) ظاہر ہے کہ یہ صرف ایک خبر ہے جو خبیر مطلق اپنے بندہ کو دے رہا ہے۔ ایک اطلاع ہے جو علیم کل اپنے رسول کو پہنچا رہا ہے۔ مرضی الہی سے اسے شائبہ تعلق بھی نہیں۔ ” علم “ و ” مرضی “ کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے۔ عوام کے ذہن ان دو بالکل مختلف قانونوں کے درمیان خلط مبحث کرکے اپنے کو عجیب الجھنوں میں ڈال لیتے ہیں۔ طبیب حاذق اپنے علم کی رو سے مدتوں پیشتر خبر دے دیتا ہے کہ فلاں بد پرہیز، خود رائے مریض اچھا نہ ہوگا۔ کیا اس پیش گوئی اس اخبار غیب میں اس شفیق طبیب کی خواہش ومرضی کو بھی کچھ دخل ہوتا ہے ؟ بقول مفسر تھانوی مدظلہ اس کافر کا ناقابل ایمان ہونا اللہ کے اس خبر دینے کی وجہ سے نہیں ہوا، بلکہ خود اللہ تعالیٰ کا یہ خبر دینا اس کافر کے ناقابل ایمان ہونے کی وجہ سے واقع ہوا ہے۔ اور ناقابل ایمان ہونے کی صفت خود اس کی شرارت وعناد ومخالفت حق کے سبب سے پیدا ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص میں اس کی پیدائش کے ساتھ استعداد قبول حق کی رکھی ہے، جیسا کہ حدیث میں آگیا ہے۔ مگر یہ شخص خود اپنی ہوائے نفسانی اور خود غرضی کی وجہ سے حق کی مخالفت کرتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک روز وہ استعداد فنا ہوجاتی ہے۔ 18 (اس لیے کہ وہ ایمان لانے کا قصد ہی نہیں کرتے، اور نہ خلوئے ذہن کے ساتھ تعلیمات اسلامی پر غور کرتے ہیں) اے لایریدون ان یؤمنوا (ابن عباس ؓ اس سے پہلے فقرہ کی مزید تاکید اور توثیق ہوگئی۔ اور اہل عناد کے حق میں ان کی بےالتفاتی اور عدم احساس کی بنا پر اندار اور عدم اندار کا یکسان ہونا اور روشن ہوگیا۔ اکثر ائمہ تفسیر نے آیت کی ترکیب نحوی یوں ہی سمجھی ہے اور (آیت) ” لایؤمنون “ کو جملہ مؤکدہ ومفسرہ فقرۂ ماقبل کا سمجھا ہے۔ جملۃ مؤکدۃ للتی فبلھا (ابن کثیر) جملۃ مفسرۃ لاجمال ما قبلھا اوحال مؤکدۃ (بیضاوی) لیکن ایک دوسری ترکیب بھی انہیں بزرگوں سے یہ منقول ہے، کہ (آیت) ” لا یؤمنون “ خبر ہے (آیت) ” ان الذین کفروا “ کی اور پورا فقرہ (آیت) ” سوآء علیہمء انذرتھم ام لم تنذرھم “ درمیان میں بطور جملہ معترضہ کے آگیا ہے۔ خبر لان والجملۃ قبلھا الاعتراض (کشاف) خبران والجملۃ قبلھا الاعتراض (بیضاوی) خبر لان والجملۃ قبلھا الا عتراض (مدارک) ویحتمل ان یکون لا یؤمنون خبرا (ابن کثیر) اصل مقصود دونوں ترکیبوں کی صورت میں ایک ہی رہتا ہے۔
Top