Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 5
اُولٰٓئِكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ١ۗ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ عَلٰي : اوپر ھُدًى : ہدایت کے ہیں مِّنْ : سے رَّبِّهِمْ : اپنے رب کی طرف سے وَ : اور اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ ہیں ھُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : جو فلاح پانے والے ہیں
: یہی لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت پر ہیں14 ۔ اور یہی (پورے) بامراد ہیں15 ۔
4 1 سورة فاتحہ میں دعا بندوں کی زبان سے طلب ہدایت کی تھی، اھدنا الصراط المستقیم دعا معا قبول ہوئی کتاب ہدایت نازل ہوگئی۔ ھدی للمتقین، اب ارشاد ہوا کہ فلاں فلاں علامتیں جن میں موجود ہوں، وہی ہدایت یاب لوگ ہیں (آیت) ” اولئک علی ھدی من ربھم “۔ (آیت) ” اولئک۔ ان ہدایت یاب لوگوں کے خصوصیات ذیل قرآن مجید ہی سے معلوم چکے ہیں۔ ( 1) ان کا ضمیر زندہ ہوتا ہے۔ ان کے دلوں میں خوف خدا کی جگہ ہوتی ہے۔ (آیت) ” المتقین “ (2) ان کا اعتقاد اس مادی دنیا سے پرے ایک عالم غیب پر ہوتا ہے (آیت) ” یؤمنون بالغیب “ (3) ان کے تعلق مع اللہ کا عملا اظہاریوں ہوتا ہے کہ یہ نماز پڑھتے رہتے ہیں، اور نماز کا حق ادا کرتے رہتے ہیں (آیت) ” یقیمون الصلوۃ “ (4) اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو یہ اللہ کی مخلوق پر صرف کرتے رہتے ہیں (آیت) ” مما رزقنھم ینفقون “ (5) یہ رسول اللہ ﷺ کے رسول برحق اور بہترین معلم وہادی ہونے اور قرآن کے کلام الہی ہونے کا یقین رکھتے ہیں۔ (آیت) ” یؤمنون بما انزل الیک “ (6) پورے سلسلہ وحی ونظام نبوت کی تصدیق کرتے رہتے ہیں۔ (آیت) ” وما انزل من قبلک “ (7) ان کا کامل اعتقاد یوم آخرت یا روز جزا پر رہتا ہے۔ (آیت) ” وبالاخرۃ ھم یوقنون “۔ 15 (دنیا اور آخرت دونوں میں) دنیا کی فلاح تو یہ کہ انہیں راہ ہدایت نصیب ہوگئی، اور انفرادی واجتماعی، شخصی وقومی ہر حیثیت سے جامع ترین وبہترین دستور حیات منازل زندگی کے طے کرنے کا ہاتھ آگیا۔ اور آخرت کی فلاح یہ کہ وہاں پورا پورا صلہ مل کر رہے گا۔ اے الذین ادرکوا ووجدوا ما طلبوا ونجوا من شرما منہ ھربوا (ابن جریر۔ عن ابن عباس ؓ فلاح عربی میں بڑے ہی وسیع معنی میں آتا ہے۔ دنیا وآخرت کی ساری خوبیوں کا جامع ہے۔ اس لیے (آیت) المفلحون “ کا پورا ترجمہ ” کامیاب “ ” بامراد “ وغیرہ کسی اردو لفظ سے ہونا دشوار ہی ہے۔ امام لغت زبیدی کا قول ہے کہ ائمہ لسان کا اس پر اتفاق ہے کہ کلام عرب میں جامعیت خیر کے لیے فلاح سے بڑھ کر کوئی لفظ موجود نہیں۔ لیس فی کلام العرب کلہ اجمع من لفظۃ الفلاح لخیری الدنیا والاخرۃ کما قال ائمۃ اللسان (تاج) (آیت) ” اولئک ھم المفلحون “ کی ترکیب نے معنی میں حصر وتاکید پیدا کردی۔ اور ھم بطور کلمہ فصل کے تاکید نسبت و تخصیص کے لیے ہے۔ وھم فصل یفصل الخبر عن الصفۃ ویؤکد النسبۃ ویفید اختصاص المسند بالمسندالیہ (بیضاوی) وادخال ھو فی مثل ھذا الترکیب احسن لانہ محل تاکید ورفع توھم (بحر) مفسر تھانوی مدظلہ نے یہ بات خوب لکھی ہے کہ حصر کا تعلق فلاح کا مل سے ہے نہ کہ فلاح مطلق سے، اور (آیت) ” المفلحون “ سے مراد الکاملون فی الفلاح ہے۔ اور معتزلہ وخوراج جنہوں نے آیت سے یہ نکالنا چاہا ہے کہ کبائر کا مرتکب فلاح مطلق یعنی نجات سے محروم رہے گا، انہوں نے فلاح مطلق (نجات کاملہ) کے اور مطلق فلاح کے درمیان خلط کردیا ہے۔ المرادبہ الفلاح الکامل المستفاد من الاطلاق فالحصر للفلاح المطلق لا مطلق الفلاح (تھانوی) ۔
Top