Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 67
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖۤ اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا١ؕ قَالَ اَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ
وَ : اور اِذْ : جب قَالَ : کہا مُوْسٰى : موسیٰ نے لِقَوْمِهٖٓ : اپنی قوم سے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ تعالیٰ يَاْمُرُكُمْ : حکم دیتا ہے تم کو اَنْ : یہ کہ تَذْبَحُوْا : تم ذبح کرو بَقَرَةً : ایک گائے قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اَتَتَّخِذُنَا : کیا تم کرتے ہو ہم سے ھُزُوًا : مذاق قَالَ : اس نے کہا ( موسیٰ ) اَعُوْذُ : میں پناہ مانگتا ہوں بِاللّٰهِ : اللہ کی (اس بات سے اَنْ : کہ اَكُوْنَ : میں ہوجاؤں مِنَ : سے الْجٰهِلِيْنَ : جاہلوں میں سے
اور (وہ وقت یاد کرو) جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ تمہیں اللہ حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو،233 ۔ وہ بولے آپ ہم سے ہنسی کررہے ہیں کیا ؟234 ۔ موسیٰ نے کہا خدا مجھے اس سے پناہ میں رکھے کہ میں جاہلوں میں ہوجاؤں،235 ۔
233 ۔ اسرائیلیوں میں ایک واقعہ قتل کا ہوگیا تھا اور قاتل کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔ ذبح گاؤ کا حکم اسی سلسلہ میں ملا۔ اس کی کچھ تصریح اگلے رکوع میں آرہی ہے۔ یہ زمانہ وہ ہے کہ صدیوں تک مصر میں اور مصر والوں کے درمیان رہتے رہتے بہت سے مشرکانہ رسوم توحید کے علمبردار اسرائیلیوں میں پھیل چکے ہیں۔ اور گائے کی عظمت بلکہ تقدیس ان کے دلوں میں رچ چکی ہے۔ ہندوستان کی طرح مصر میں بھی گائے کی تقدیس مشرکانہ مذہب کا ایک جزوتھی۔ توریت میں اسرائیلیوں کو ذبح گا ؤکا حکم خاص خاص قیدوں اور شرطوں کے ساتھ بار بار ملا ہے۔ مثلا ” بنی اسرائیل کو کہو کہ ایک لال گائے جو بےداغ اور بےعیب ہو اور جس پر کبھی جوا نہ رکھا گیا ہو، تجھ پاس لائیں، تم اسے الیعزر کاہن کو دو کہ اسے خیمہ گاہ سے باہر لے جائے اور وہ اس کے حضور ذبح کی جائے “۔ (گنتی۔ 19:2) ” جو شہر مقتول سے زیادہ نزدیک ہے، اسی شہر کے بزرگ سے ایک بچھیالیں جس سے ہنوز کچھ خدمت نہ لی گئی ہو اور جوئے تلے نہ آئی ہو اور اس شہر کے بزرگ اس بچھیا کو ایک بیہڑوادی میں جو نہ جوتی گئی ہو نہ اس میں کچھ بویا گیا ہو، لے جائیں اور اس وادی میں اس بچھیا کی گردن کاٹیں۔ “ (استثناء 2 1:3، 4) بقرۃ۔ اصلا صرف گائے کے لیے ہے، اور ثور کا مؤنث ہے۔ قیل للذکر ثور (راغب) البقرۃ اسم الانثی والثور اسم اللذکر (قرطبی) لیکن بعض مفسرین نے اسے گائے اور بیل دونوں کے لیے عام رکھا ہے اور یہاں اس سے بیل مراد لی ہے۔ 234 ۔ بنی اسرائیل ” گؤماتا “ کے احترام و تقدیس کے جذبہ سے سرشار تھے۔ یقین ہی نہ آیا کہ ایسے مقدس ومحترم کے ذبح کر ڈالنے کا حکم ملا ہوگا۔ بس یہی سمجھے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہنسی اور تفنن طبع کی راہ سے کہہ رہے ہیں۔ 235 ۔ (اور احکام خداوندی کی پیام رسانی میں ہنسی دل لگی سے کام لینے لگوں) جاھلین۔ جہل کے لغوی معنی میں کسی کام کو اس کے برخلاف ادا کرنے کا حق ہے۔ الجھل فعل الشیء بخلاف ما حقہ ان یفعل (راغب) اللہ کی طرف سے پیام گڑھ لینے کی جسارت وہی کرسکتا ہے جو خود اللہ تعالیٰ سے غافل و جاہل ہو۔ انما یکون ذلک من الجھل باللہ تعالیٰ (بحر) یا وہ کرسکتا ہے جو امور دینی میں استہزاء کے نتائج و عواقب سے بیخبر ہو۔ (آیت) ” ان اکون من الجھلین “ بما فی الاستھزاء فی امر الدین من العقاب الشدید (کبیر) فقہاء ومفسرین نے آیت سے استنباط کیا ہے کہ دین ومعظمات دین کے ساتھ استہزاء حکم جہل اور گناہ عظیم میں داخل ہے اور اس کا مرتکب مستحق وعید ہے۔ وفی الایۃ دلیل علی منع الاستھزاء بدین اللہ ودین المسلمین ومن یجب تعظیمہ وان ذلک جھل وصاحبہ مستحق للوعید (قرطبی) یدل علی ان الاستھزاء من الکبائر العظام (کبیر) لیکن ساتھ ہی یہ ضروری تصریح بھی کردی ہے کہ مزاح یا خوش طبعی کو استہزاء یا تمسخر سے کوئی مناسبت نہیں۔ دونوں میں بڑا فرق ہے۔ خوش طبعی تو خود رسول اللہ ﷺ والمزاح ظاہر فلاینا فی وقوعہ من الانبیاء (روح) اور مفسر قرطبی نے اس سلسلہ میں ابن خونیر منداد کے حوالہ سے شہر کوفہ کے قاضی (جج) کی ایک دلچسپ حکایت بھی نقل کی ہے۔
Top