Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 66
فَجَعَلْنٰهَا نَكَالًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهَا وَ مَا خَلْفَهَا وَ مَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِیْنَ
فَجَعَلْنَاهَا : پھر ہم نے اسے بنایا نَکَالًا : عبرت لِمَا بَيْنَ يَدَيْهَا : سامنے والوں کے لئے وَمَا خَلْفَهَا : اور پیچھے آنے والوں کے لئے وَمَوْعِظَةً : اور نصیحت لِلْمُتَّقِیْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
ہم نے اسے (موجب) عبرت بنادیا اس زمانہ کے اور اس کے بعد کے لوگوں کے لیے،231 ۔ اور ایک (موجب) نصیحت (بنادیا) خوف خدا کے رکھنے والوں کے لیے،232 ۔
231 ۔ سزا کی تفصیلی نوعیت کچھ بھی ہو، بہرحال تھی وہ کوئی بہت سخت اور عبرتناک سزا۔ قرآن مجید کا مقصود اس سزا کی تفصیل بیان کرنا نہیں، بلکہ اس کی عبرت انگیزی اور موعظۃ آموزی کے پہلوکو واضح کرنا ہے۔ واقعہ جو کچھ بھی ہو، یہود کا جانا بوجھا ہوا تھا، قرآن اسے صرف یاد دلا رہا ہے۔ جعلنھا میں ھا کی ضمیر عقوبت کی طرف بھی ہوسکتی ہے، اور اس مسخ شدہد امت کی طرف بھی۔ ماحصل دونوں صورتوں کا ایک ہی ہے۔ اے جعلنا تلک العقوبۃ (ابن جریر، عن ابن عباس ؓ یعنی بہ فجعلنا الامۃ التی اعتدت فی السبت (ابن جریر) (آیت) ” نکالا۔ نکال وہ سخت سزا ہے جو دوسروں کے لیے باعث عبرت ہو۔ اے عبرۃ تنکل المعتبربھا (بیضاوی) عبرۃ تنکل من اعتبربھا (کشاف) (آیت) ” ما بین یدیھا وما خلفھا۔ ما دونوں جگہ من کے معنی میں آیا ہے یعنی ما کا استعمال جاندار، صاحب عقل مخلوق کے لیے ہوا ہے۔ (آیت) ” مابین یدیھا “ معاصرین کے معنی میں ہے اور 3 (آیت) ” ما خلفھا “ بعد کے آنے والوں کے معنی میں۔ مابین یدیھا اے معاصریھم (ابن عباس ؓ ما خلفھا اے من خلفھم (ابن عباس ؓ بما قبلھا وبما بعدھا من الامم والقرون (کشاف) (آیت) ” یدیھا اور خلفھا “ دونوں میں ضمیر ھا عقوبت کی طرف ہے۔ والضمیر ان للعقوبۃ (قرطبی) گویا سزا ایسی تھی کہ مدتوں تک نسلا بعد نسل اس کا چرچا رہے اور لوگ اس کا تذکرہ سن سن کر ڈرتے اور لرزتے رہیں۔ 232 ۔ یعنی تاکہ متقین کو اس واقعہ کی حکایت سے راہ تقوی کی طرف ترغیب اور زیادہ ہو۔ یا یہ مراد لی جائے کی نصیحت کو قبول کرنے والے اور اس سے فائدہ اٹھانے والے متقین ہی ہوں گے۔ صاحب روح المعانی نے یہاں یہ نکتہ اہل عرفان کے لیے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عبادتوں کو خاص خاص ہیئت کے ساتھ خاص اوقات میں متعین کیا ہے۔ تاکہ طبعی ظلمتیں دورہوں سو جو شخص ان ہئیتوں کی رعایت نہیں کرتا اس کا نوراستعداد ضائع ہوجاتا ہے اور وہ اصحاب سبت کی طرح مسخ کردیا جاتا ہے۔ یعنی جس جانور کے اوصاف اس میں راسخ ہیں، انہیں کی طبیعت اس میں پیدا کردی جاتی ہے۔ اگرچہ اس امت کے لیے مسخ صورت نہیں۔ پس انسان کو چاہیے کہ ادویہ شرعیہ کے ذریعہ سے اپنی انسانیت کو محفوظ رکھنے کی کوشش میں لگا رہے، چناچہ بعض اہل کشف اس زمانہ میں ایسے بھی پائے گئے ہیں، جو انسان کو اسی حیوان کی شکل میں دیکھتے ہیں، جس کی صفت حیوانی اس پر غالب ہوتی ہے۔ مثلا جس میں ظلم وشقاوت غالب ہوتی ہے، اسے آتا ہوا دیکھ کر پکار اٹھتے ہیں کہ بھیڑیا آرہا ہے۔ یا جس پر حرام خوری کی گندگی غالب ہوتی ہے اسے دیکھ کر یوں بول اٹھتے ہیں کہ سؤر چلا آرہا ہے۔ اور اس قسم کا کشف تکوینی صرف اہل حق ومقبولین کے ساتھ مخصوص نہیں۔
Top